RT News

Sunday, April 05, 2009

30 dead, 35 injured in Chakwal Imambargah suicide blast












Updated at: 1515 PST, Sunday, April 05, 2009
CHAKWAL: At least 22 persons died and several were injured at the Imambargah suicide bombing here.


One killer blew himself up with explosives during annual Majlis Aza being held at the Imambargah located in the centre of the town at Mohala Sarpak of City police station area. The blast ripped apart the bodies of the faithful at the Imambargah, leaving a horrific scene of scattered body parts and blood all around the incident site.

Eyewitnesses said that following a Majlis, the faithful had crowded the main gate of the Imambargah, while those entering into the Imambargah were being frisked, when a youth 16/17 year old during checking blew himself up, which resulted in on the spot death of 20 persons, while the other two succumbed to their injuries in hospital. Four children were also included among the dead, they said.

The bodies and the injured were shifted to the Chakwal District Headquarter Hospital, while some injured were sent to Rawalpindi.

Ambulances from Rawalpindi and Jhelum reached the scene of incident and stated relief operations. High police officials, DCO and heavy contingents of police also arrived following the blast. The police besieging the area have collected the evidences.

Several vehicles were also damaged in the blast. Large number of people had thronged the hospital for finding out the welfare of their relatives, while the town remains drowned in an environment of mourning.


--------

24 dead, 35 injured in Chakwal Imambargah suicide blast
Updated at: 1545 PST, Sunday, April 05, 2009
CHAKWAL: At least 24 persons died and 35 were injured at the Imambargah suicide bombing here.

One killer blew himself up with explosives during annual Majlis Aza being held at the Imambargah located in the centre of the town at Mohala Sarpak of City police station area. The blast ripped apart the bodies of the faithful at the Imambargah, leaving a horrific scene of scattered body parts and blood all around the incident site.

Eyewitnesses said that following a Majlis, the faithful had crowded the main gate of the Imambargah, while those entering into the Imambargah were being frisked, when a youth 16/17 year old during checking blew himself up, which resulted in on the spot death of 20 persons, while the other four succumbed to their injuries in hospital. Four children were also included among the dead, they said.

The bodies and the injured were shifted to the Chakwal District Headquarter Hospital, while some injured were sent to Rawalpindi.

Ambulances from Rawalpindi and Jhelum reached the scene of incident and stated relief operations. High police officials, DCO and heavy contingents of police also arrived following the blast. The police besieging the area have collected the evidences.

Several vehicles were also damaged in the blast. Large number of people had thronged the hospital for finding out the welfare of their relatives, while the town remains drowned in an environment of mourning.


----


چکوال کے غلام رضا کی کہانی

آصف فاروقی

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، چکوال

چکوال

ٹکڑوں کی شکل میں ہسپتال آنے والی لاشوں کے لیے لکڑی کے تابوت کا بندوبست کیا جا رہا ہے

چکوال کے محلہ کوٹ گنیش کے اس کچے پکے گھر کے صحن میں جب غلام رضا کی لاش رکھی گئی تو پوری گلی میں جیسے کہرام مچ گیا۔ اتوار کی شام اس چھوٹے سے محلے کی تقریباً ہرگلی میں ایسا ہی شور تھا۔

علاقے کی سب سے بڑی امام بارگاہ کے سامنے چکوال کا یہ محلہ اہل تشیع کی بڑی تعداد کی وجہ سے مشہور ہے۔ جہاں چند گھر سنی مسلک سے تعلق رکھنے والوں کے بھی ہیں۔

گھر سے قریب ہونے کے باعث امام بارگاہ کے بیشترانتظامی امور اسی محلے کے نوجوان انجام دیتے تھے۔ صفائی ستھرائی، پانی کی سبیلیں، حفاظتی انتظامات وغیرہ۔ اور اتوار کی دوپہر ہونے والے خودکش حملے کے بعد سب سے زیادہ لاشیں بھی اس محلے میں لائی گئیں۔

بائیس سالہ غلام رضا کے بڑے بھائی نے دو کمروں پر مشتمل اپنے گھر کے کچے صحن میں اپنے بھائی کی لاش کے سرہانے بیٹھ کر بی بی سی کو بتایا کہ امام بارگاہ محلہ سر پاک کی صفائی کرنا ہمارا آبائی کام ہے۔ ’ہمارے والد صاحب بھی اسی امام بارگاہ میں جھاڑو دار تھے اور ہم چاروں بھائی بھی شوق کی خاطر یہی کام کرتے ہیں‘۔

گلفام نے اپنے چھوٹے بھائی کی میت کی طرف اشارہ کر کے ڈبڈباتی آنکھوں سے کہا کہ ’ہم سے تو کبھی بھول چوک ہو جاتی تھی لیکن یہ ہمیشہ باقاعدگی سے اپنا کام کرتا رہا۔ آج بھی یہی بازی لے گیا‘

رضا خاندان تین بھائیوں اور تین بہنوں پر مشتمل ہے۔ دھماکے کے وقت پورا خاندان امام بارگاہ میں موجود تھا۔

گلفام نے بتایا کہ تینوں بھائی دیہاڑی پر محنت مزدوری کر کے اپنا گزارا کر رہے ہیں۔ غلام رضا کی ابھی شادی نہیں ہوئی تھی بلکہ ان کے بھائی کے بقول وہ ان کی شادی کی تاریخ طے کرنے کے لیے ان کی منگیتر کے گھر جانے کا پروگرام بنا رہے تھے۔’غلام رضا کام پر جائے یا نہ جائے، جھاڑو داری کے اپنے فرض سے کبھی غافل نہیں ہوا‘۔

میری زندگی میں اس علاقے کے سنی اور شیعہ مسالک کے درمیان کبھی جھگڑا بھی نہیں ہوا۔ پولیس محرم کے جلوس کے لیے حفاظتی اقدامات کرتی ہے لیکن وہ بھی رسمی ہو تے ہیں

جاوید شاہ

محلہ کوٹ گنیش کی تنگ گلیوں سے نکلیں تو بالکل سامنے وسیع و عریض مرکزی امام بارگاہ پڑتی ہے اور اس سے متصل اس سے بھی بڑا کھیلنے کا میدان ہے۔ اس میدان میں جگہ جگہ ٹولیوں کی شکل میں اہل محلہ اتوار کی شام تک بیٹھے اس نکتے پر بحث کرتے رہے تھے کہ علاقے میں کئی دہائیوں سے قائم شیعہ اور سنی مسالک کے افراد کے درمیان دوستی اور احترام کے رشتے کو کس کی نظر لگ گئی؟

ساٹھ سالہ جاوید شاہ کا کہنا تھا کہ یہ کارروائی انہی لوگوں نے کی ہے جو پورے ملک میں دہشت گردی پھیلا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ’میری زندگی میں اس علاقے کے سنی اور شیعہ مسالک کے درمیان کبھی جھگڑا بھی نہیں ہوا۔ پولیس محرم کے جلوس کے لیے حفاظتی اقدامات کرتی ہے لیکن وہ بھی رسمی ہو تے ہیں‘۔

اما بارگاہ کے حفاظتی انتاظامات کے انچارج تحسین نے کہا کہ علاقے کے سنی لوگ بھی اس سانحے پر اتنے ہی رنجیدہ ہیں جتنے کہ شیعہ آبادی۔ ’یہ لوگ ہمارے شہیدوں کے لیے قبریں تیار کر رہے ہیں، ہمارے جنازوں کو کندھا دے رہے ہیں اور ہمارے زخمیوں کے لیے خون دے رہے ہیں۔ ایسے میں کون مانے گا کہ یہ واردات فرقہ وارنہ ہے‘۔ تحسین کے مطابق یہ کام انہی ’طالبان نما‘ عناصر کا ہے جو حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے پاکستانی قوم پر ظلم کر رہے ہیں تاکہ وہ حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔

اسی قسم کے جذبات چکوال کے سب سے بڑے سول ہسپتال کی راہداریوں میں بھی سننے کو ملے جہاں لواحقین اپنے زخمی مریضوں کے سرہانے کھڑے اس سانحے کی وجوہات پر اپنی اپنی رائے کا اظہار کر تے نظر آئے۔

ہسپتال کے شعبہ حادثات کے صدر دروازے کے سامنے چارپائیوں اور لکڑی کے تابوتوں میں امام بارگاہ میں ہلاک ہونے والوں کی لاشیں رکھی ہوئی ہیں جہاں سے انہیں لواحقین کے حوالے کیا جا رہا ہے۔

ساتھ ہی ایک دیوار پر لگے نوٹس بورڈ پر یہ تحریر ہاتھ سے لکھ کر چسپاں کی گئی ہے۔’لواحقین اپنی لاشیں وصول کرنے کے بعد چیک کر لیں اگر ان کے اعضاء پورے نہ ہوں تو ہسپتال انتظامیہ سے رابطہ کیا جائے‘۔

یہ تحریر بتا رہی تھی کہ اس ہسپتال میں لاشیں کس حالت میں لائی گئی ہوں گی۔ اسی ضمن میں مزید معلوم کرنے پر بتایا گیا کہ جو لاشیں درست حالت میں تھیں انہیں چارپائیاں مہیا کی گئی ہیں جبکہ ٹکڑوں کی شکل میں ہسپتال آنے والی لاشوں کے لیے لکڑی کے تابوت کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔

محلہ کوٹ گنیش کا غلام رضا اس لحاظ سے ’خوش قسمت‘ تصور کیا جائیگا کہ اس کی لاش چارپائی پر لائی گی ہے جبکہ محلے میں آنے والی بیشتر لاشیں تابوتوں میں ہی بند نظر آئیں

No comments: