RT News

Sunday, December 20, 2009

کیا سترہ نے خطرہ ٹال دیا؟

جمعه 01 محرم 1431هـ - 18 دسمبر 2009م





ڈاکٹر عامر لیاقت حسین

میں نے مانا کہ آپ جمہوریت کے راستے پر چلتے چلتے ہی یہاں تک آئے ہیں، آمریت کی کسی گندی نالی سے بہتے ”میرے عزیز ہم وطنو!“ کہتے ہوئے نہیں نکلے۔مجھے احساس ہے کہ یہاں تک پہنچنے کے لیے آپ نے بہت”محنت“ کی ہے۔ یقیناکسی ”اپنے“کے لہو کی قیمت کا ”مختصر وقت“ میں اندازہ لگانا کوئی معمولی بات نہیں لیکن یہ آپ ہی تو تھے جس نے آنکھیں بند ہوتے ہی یہ جان لیا تھا کہ آج کے بعد اپنی آنکھیں کہاں کہاں کھلی رکھنی ہیں؟اور پھر آپ نے وہ سب کچھ حاصل کیاجس کی آرزو میں عمر دراز کے دو دن انتظار ہی میں کٹ گئے تھے۔دن بدلے، راتیں نکھریں اور رُخسارِ مبارک پر چنچل ہنسی نے ایسے قدم جمائے کہ قوم نے یہ سوچ کر مسکرانا ہی چھوڑ دیا کہ اُن کی طرف سے جب آپ اتنا ہنس لیتے ہیں تووہ رسماً کھلکھلا کر کیا کریں؟ اب توصرف رونا ہی باقی بچا تھا سو ہم سب روتے رہے ،اِس بات پر بھی کہ آ پ کیوں ہنس رہے ہیں اور یہ جان کر بھی کہ اب آپ بہت دیر تک یونہی ہنستے رہیں گے۔

آپ کے دوستوں، بہی خواہوں، چارہ گروں اور آپ ہی کے رنگ میں لتھڑے ہوؤں نے کذب کے دانتوں اور ہوس کے پنجوں سے وطن کو خوب بھنبھوڑا، جہاں جہاں سے گوشت باقی رہ گیا تھا وہاں سے ایک ایک ریشہ نوچ کر ڈکار لیااور ممکن تھا کہ ہڈیاں بھی چپا ڈالتے کہ 17منصف راہ کی دیوار بن گئے … مختصر فیصلے نے اُس لمبی آرزو کا گلا گھونٹ دیاجس کے نوکیلے دانتوں سے ٹپکتا ہوا خون نہ جانے کس کس بے گناہ کے قتل کی داستان سنا رہا تھا…ویسے بھی تاریخی فیصلے ہمیشہ مختصر ہی ہوا کرتے ہیں کیونکہ جب انسان کی عقل پختہ ہو جاتی ہے تو اُس کی گفتگو مختصر ہو جاتی ہے …تاہم اب ایک فیصلہ آپ نے کرنا ہے ،ڈھٹائی کے ساتھ کرسی سے چمٹ کر رہنا ہے یا گناہوں کا بوسیدہ پیرہن اُتار کے کسی اُجلے کونے میں سمٹ کر رہنا ہے…یاد رکھیے کہ بھول پر دُھول جھونکنے کا زمانہ گذر گیا،سترہ کی بینچ نے بہتو ں کے نیچے سے بینچ نکال دی ہے …کچھ سہلا رہے ہیں، کچھ کراہ رہے ہیں…اور جو”پکے کھلاڑی“ ہیں وہ”اِترا“ رہے ہیں کہ اِس رسوائی پر اگر آنکھ جھکائی تو دنیا کیا کہے گی؟

اِسے تو ایک چیلنج سمجھ کر قبول کرنا چاہیے بلکہ یوں سمجھنا چاہیے کہ جرم کی را ہ پر چلتے چلتے کچھ دیر سستانے کو ”این آر او“ کی چھاؤں میں اطمینان کے دو جھونکے لے لیے تھے، یہ تو ایک پڑاؤ تھا، منزل تو بہت دو ر ہے …ابھی تو ظلم کے کسیلے پھلوں کی کئی قاشیں باقی ہیں جنہیں کھاکر جبر کی توانائی سے مزید آگے بڑھنا ہے…شرمندگی اور پسپائی کیسی؟ہم تو اُس قوم کے ”رہنماؤں“میں سے ہیں جس کی یادداشت ہی بہت کمزور ہے،بس چند دنوں کا شور ہے، اُس کے بعد سب بھول جائیں گے…پھر وہی نعرے، وہی جلوے،وہی جلسے…وہی جوشیلے نوجوان، جن کے لبوں پر ”قدم بڑھاؤ…ہم تمہارے ساتھ ہیں“کی پکار ایک نیا حوصلہ عطا کرے گی…ہمارا کیا ہے ہم تو پہلے ہی سے عدالتیں بھگتاتے آئے ہیں، یہ سترہ پنچھی بھی اپنی اپنی بولیاں بول کر اُڑ جائیں گے لیکن ہم کوّے جس منڈیر پر تھے وہیں بیٹھے کائیں کائیں کرتے رہیں گے…فکر کس بات کی ؟چہرے پر تردد، پشیمانی اور حیرانی تب نظر آئے جب ہو؟ہمیں کس بات کی پریشانی؟آخر کیوں استعفیٰ دیں، کس لیے دیں اورکس کے لیے دیں؟باقاعدہ منتخب ہوکر آئے ہیں لہٰذا مستعفی ہونے کے لیے بھی ضروری ہے کہ عہدہ چھوڑنے کا انتخاب کرایا جائے، اور پھر ویسے بھی ایسے جرائم پر استعفیٰ دینے کا کوئی جواز نہیں جو ایک قانون سے مردہ ہوجائیں اور ایک فیصلے سے زندہ ہوجائیں…ایسے ”تابعدار جرائم“ پر وہی اختیار چھوڑیں جو پوچھ کر جرم کرتے ہوں،ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ ”سترہ“ ہماری ”ستر پوشی“ کرتے،الزامات پر پردہ ڈالتے یا کم از کم خاموش ہی رہتے مگر لگتا ہے کہ سب ”جاگ گئے ہیں“اور ہم تو پہلے ہی سے جاگ رہے ہیں…کل ہی جان گئے تھے کہ یہ قانون ”عدم“ تک نہیں رہے گاتوکیا فرق پڑتا ہے اگر آج سے یہ ”کالعدم“ ہوگیا ہے …

پتے کی بات تو یہ ہے کہ جو پیسہ تھا وہ ”ہضم“ ہوگیا ہے …اب یہ پیٹ پھاڑ کے تو نکالنے سے رہے …رہیں گرفتاریاں،قیدو بند کی صعوبتیں اور اسیریاں، یہ تو سیاست کی نفلی عبادتیں ہیں،جیل میں نہیں رہیں گے تو ”اقتدار کی Tail“ میں کیسے لگے رہیں گے؟ ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگیں گی جب ہی توامریکا سے کڑیاں ملیں گی اور عدالتوں میں پیشیاں ہوں گی جب ہی توصحافیوں سے اِس طرح کی گفتگو کا موقع ملے گا…اور ہم یوں کہیں گے ”دیکھیے جی ! ہم نے عدالتوں کا سامنا کیا، فرار ہوئے نہ بھاگے! سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کیا اور اپنے آپ کو قانون کے حوالے کردیا، ہمارے ہاتھ کل بھی صاف تھے اور دامن آج بھی صاف ہے ، چاہتے تو بہت کچھ کر سکتے تھے مگر اِس سے شہیدوں کی روح کوتکلیف پہنچتی، جمہوریت بدنام ہوتی، آمریت کو موقع ملتااورنظام برباد ہوجاتا، اب دیکھ لیجیے کہ جن الزامات کے تحت ہمیں گرفتارکیا گیا وہ اب تک ثابت نہیں ہوسکے ہیں کیونکہ یہ سراسر انتقام پر مبنی تھے اور سب کے سب جھوٹے تھے، انشا اللہ ایک دن یہ سارے کیسز ختم ہوں گے اور ہم اپنے عوام کے درمیان اُن کی خدمت کے لیے پھر سے موجود ہوں گے“…اور کاغذ قلم سنبھالے صحافی، یا کیمرے کے پیچھے حیرت زدہ ٹی وی میزبان اِس کے سوا کچھ نہیں کہہ سکے گاکہ ”شاید مقدمات کو صحیح طرح سے ہینڈل نہیں کیا گیا یاممکن ہے کہ موصوف پر الزامات ہی بے بنیاد تھے“…

کل کے بعد سے ہر ادارہ کچھ زیاد ہ ہی متحرک ہوگیا ہے، ای سی ایل کی نئی لسٹیں”عبدالرحمان ملک “ کی زیرنگرانی تیار ہورہی ہیں ، گرفتاریوں کے بارے میں بھی وزیر داخلہ کو اعتماد میں لے کر چھاپے مارے جائیں گے ، برطانیہ میں سب وے ریسٹورنٹس کی چین کے مالک پاکستانی وزیر داخلہ سے تمام معلومات شیئر کی جائیں گی …اور اُن سے اجازت ملنے کے بعد کارروائی ہوگی…سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہری قومیت رکھنے والے وزرا کا نام ای سی ایل میں شامل کر کے کون سا تیر مار لیا جائے گا؟متعدد ”ذہین“ توفیصلے کی بو سونگھ کر پہلے ہی ملک سے باہر نکل چکے ہیں اور جو رہ گئے ہیں وہ اب بھی اتنے طاقت ور ہیں کہ دے دلا کر نکلنے کے سارے راستوں سے”ملک قیوم“ کی طرح واقف ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ اِس کے علاوہ ہمارے یہ قابل احترام منصف کر بھی کیا سکتے تھے۔جو کچھ اُن کے بس میں تھا اُنہوں نے کر دیایہاں تک کہ حلف سے وفاداری کا حق بھی ادا کردیا۔ یہ 17رکنی معزز و محترم بینچ حکومت تو ہے نہیں کہ مجرموں کو کٹہرے تک لے آئے اورجن پر الزام ہیں وہ اشخاص نہیں، پوری حکومت ہے ، اِسی لیے مطمئن ہیں کہ خود پکڑا توپکڑے جائیں گے ورنہ کون ہے جو پکڑ لے؟…ملزمان کے خلاف کارروائی کا آغاز پولیس، ایف آئی اے اور خفیہ اداروں سے ہونا ہے اور طرفہ تماشا یہ یہ ہے کہ یہ تمام ادارے جس کے ماتحت ہیں وہ خود ایک ملزم ہے…پورا ملک خوش ہے ، سب شاداں ہیں کہ سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ سنادیا، اب دن بدل جائیں گے،ظالم لٹک جائیں گے…مگر نہ جانے کیوں مجھے اطمینان نہیں؟ایک دھڑکا سا لگا ہے کہ جیسے سب کچھ بکھر جائے گا،خوف محسوس ہوتا ہے کہ کہیں انصاف کے تالاب میں سوراخ نہ ہوجائے،قوم تو منصفوں کے ساتھ ہے

مگر ”مصنف “کچھ اور لکھنا چاہتے ہیں ، گھبراتا ہوں کہ زہر کے قلم تھامے نفرت کی سیاہی سے کہیں یہ فساد کا ایک اور باب نہ لکھ ڈالیں بس اسی سے ڈر لگتاہے رہ گئے یہ ڈھیٹ، چکنے گھڑے اور گناہوں کے ارتکاب پر مصر این آر او کو تمغہ کہنے والے اندھے رہنما، کوئی کہہ رہا تھا کہ جب اِن کی ڈھٹائی پر اِن کے گھر سے کسی نے کہا کہ ”آپ کے دامن پر لگے اِس داغ نے ہمیں کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا ہے “تو جواباًاِنہوں نے کہا کہ ”داغ سے کیا گھبرانا، داغ تو اچھے ہوتے ہیں مگر یہ وقت پھر نہیں آئے گا“۔

No comments: