RT News

Monday, November 02, 2009

’بھٹو کی پھانسی کی خبر پڑھ لیں گی؟‘





دیار غیر کے موسموں کے رنگ
ماہ پارہ صفدر

ماہ پارہ صفدر

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن

اسلام آباد ہالیڈے ان میں الوداعی تقریب

اسلام آباد ہالیڈے ان میں ہونے والی الوداعی تقریب میں میری والدہ نے بھی شرکت کی

بی بی سی اردو سروس میں آنے سے پہلے ماہ پارہ صفدر پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان پر نیوز پریزینٹر کی حیثیت سے وابستہ تھیں۔ زندگی کے اس ابتدائی سفر سے وابستہ بہت سی یادیں ان کی زندگی کا قیمتی سرمایہ ہیں، بی بی سی اردو ڈاٹ کام پر گزشتہ گیارہ ہفتوں سے انہیں یاداشتوں پر مبنی سلسلہ شائع کیا جا رہا ہے۔ پیش ہے آخری قسط:

اگر میں یہ کہوں تو غلط نہیں ہوگا کہ میں نے جب سن نوے میں پاکستان ٹی وی چھوڑا یہ اپنے عالم شباب پر تھا۔ ٹی وی سکرین پر نظر آنے والے خاص طور پر نیوز کاسٹرز نہ صرف حکمرانوں بلکہ عوام اور اخبارات کی نظروں میں رہتے تھے۔ اسی لیے میرے بی بی سی جانے کی خبریں اکثر اخبارات میں شائع ہوچکی تھیں۔

تقرری سے لیکر 27 جنوری کو لندن روانگی تک ایک سوال جو مجھ سے تواتر سے پوچھا گیا وہ یہ تھا کہ میں ٹی وی اور ملک چھوڑ کر کیوں جارہی ہوں۔ بقول لوگوں کے شہرت و عزت پر لات مار کر میں کفران نعمت کی مرتکب ہورہی تھی۔

احباب کی محبتیں سر آنکھوں پر۔ یہاں پر متعدد تقریبات میں سے دو الوداعی تقریبات کا ذکر میرے اوپر قرض ہے۔

پہلی تقریب اسلام آباد ہالی ڈے اِن میں ظفر بختاری کے زیر اہتمام اور دوسری فدا حسین ملک اور اہلیان چکوال کی جانب سے چکوال میں منعقد کی گئی۔ ان دونوں میں شرکاء کی بھر پور شرکت میرے لیے باعث صد افتخار تو تھی ہی، باعث حیرانگی بھی تھی۔ منکسر مزاجی اپنی جگہ اس دوران میں پوری دیانت داری سے سوچ رہی تھی کہ زندگی میں شائد ایسے مواقع بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتے ہوں گے۔
سابق وزیر شہناز وزیر علی

سابق وزیر شہناز وزیر علی

اسلام آباد میں تو ایک دوست غضنفر مہدی نے شدت جذبات میں یہ بھی کہہ دیا کہ اگر ماہ پارہ اور صفدر کے پاس اسلام آباد میں ذاتی گھر ہوتا تو شائد یہ لوگ بیرون ملک نہ جاتے۔ تقریب کی مہمان خصوصی خواتین کی بہبود کی وزیر شہناز وزیر علی نے مذاقاً کہا کہ مقررین کے تاثرات سن کر تو دل چاہتا ہے کہ کیوں نہ ماہ پارہ صفدر کا جانا رکوا دیا جائے۔ مجھے زیادہ خوشی اس بات کی تھی کہ میری والدہ ان دونوں تقاریب میں شریک تھیں۔

اسلام آباد انٹر نیشنل سے روانگی اور لندن ہیتھرو آمد تک چند گھنٹوں کے سفر میں میری زندگی نے ایک سو اسی ڈگری کا فاصلہ طے کیا تھا۔

اسلام آباد میں سٹیشن کے ایک اہلکار مسافروں کی طویل قطار کو پیچھے چھوڑ کر مجھے سب سے پہلے جہاز تک چھوڑنے آئے، مگر لندن ائر پورٹ سے باہر آنے والے آخری مسافروں میں سے تھی۔ میں دونوں چھوٹے بچوں کی انگلیاں تھامے چلتی ہوئی مسافروں کی قطاروں تک پہنچی تو کوئی پانچ یا چھ سو مسافر میرے آگے تھے۔امیگریشن ڈسک تا پہنچتے پہنچتے کچھ گھنٹے صرف ہوئے۔ اس کے بعد میری درخواست کے باوجود بچوں کی دیکھ بھال کے لیے عارضی ویزے پر میرے ساتھ آنے والی خاتون کے میڈیکل چیک اپ کے باعث چند گھنٹے اور لگے۔ اور یوں لگ بھگ بیس گھنٹے میں یہ سفر مکمل ہوا۔ ملک کی اصول پسندی اپنی جگہ قابل ستائش مگر اسلام آباد بہت یاد آیا۔ دیارِ غیر کے موسموں کے اپنے ہی رنگ تھے۔

لندن میں موسم کیسے دبے پاؤں گزرتے رہے۔ واپسی کے گلاب کیوں مرجھا تے رہے۔ وقت کی ریت کیسے پاؤں تلے سے کھسکتی چلی گئی۔ساحلوں پہ کھڑی کشتیاں ہم نے خود ہی کیوں جلادیں۔ یہ کہانی پھر سہی۔ سر دست تو بس ایک اعتراف حقیقت کہ ہم جسے دیارغیرسمجھتے رہے وہ ہی اپنا گھر ٹھہرا مگر ایک ’نسلی اقلیت‘ کے طور پر۔

پاکستان کی سرزمین چھوڑنے کے ساتھ ہی ٹی وی سے میرا رشتہ بظاہر تو ختم ہوگیا مگر اس کی پرچھائیاں ہمیشہ میرے ساتھ رہیں۔

بی بی سی جوائن کرنے کے فوراً بعد جو تین روزہ تعارفی کورس ہمیں کروایا گیا اس دوران بھی زیادہ تر میرے ٹی وی تجربات پر ہی بات ہوتی ہوئی۔ ایک روز کافی پینے کے وقفے میں شعبہ حالات حاضرہ کی انچارج میری رین ( چند برس قبل ریٹائر ہوچکیں ہیں) بہت دلچسپی سے جنرل ضیا کی ہلاکت کا ذکر کرنے لگیں اور مجھ سے ٹی وی کی انتظامیہ اور عوام کے رد عمل کے بارے میں پوچھا۔ دوران گفتگو ضیا کی ہلاکت کی خبر مجھے نہ پڑھنے دیے جانے پر بولیں کہ عورتوں کو جذباتی اور پروفیشنلی کم تر سمجھنے کا عمل کسی ایک ملک تک محدود نہیں۔

اور پھر اپنے ابتدائی دنوں کو یاد کرتے ہوئے بولیں ”میں فٹ بال کی دیوانی تھی۔ مجھے اس بارے میں سٹوری لکھنے کا بے انتہا شوق تھا۔ لیکن فٹ بال اور سنجیدہ موضوعات پر میری لکھی ہوئی سٹوری دیکھ کر ایڈیٹر حضرات یہ کہہ کر پھینک دیا کرتے تھے کہ عورتوں کو چاہیے وہ نسوانی امراض یا بچوں کے پیدائش جیسے موضوعات پر لکھا کریں”۔

ابتدائی چند ماہ کے دوران لندن کی سرد موسموں اور دھند رستوں پر چلتے ہوئے ملک میں گزرے شام و سحر جس شدت سے یاد آئے وہ اس مصرعے میں ڈھل گئے۔

محبتوں کی چاندنی کھلی ہے اپنے دیس میں

پرائے در نظر نظر نگر نگر دھواں ملے
ماہ پارہ صفدر ایک تقریب میں

ماہ پارہ صفدر ایک تقریب میں

کئی مرتبہ اپنا تعارف کروانا یاد نہیں رہا کہ برسوں تک اپنے تعارف میں یہ سننے کی عادی ہوچکی تھی۔ یہ چہرہ اور آواز اپنی شناخت آپ ہے۔ چہرہ اور آواز تو وہ ہی تھی مگر شناخت کھو چکی تھی۔ بھیڑ میں احساس تنہائی اور بھی بڑھ جاتا تھا۔

اکثر دوستوں سے میری یہ بحث رہتی تھی کہ لوگ کیسے یہاں رہ جاتے ہیں۔ میں تو چار برس مکمل کرکے ضرور واپس جاؤنگی۔ مگر جو لوگ میرے سے پہلے اس جزیرے کے پانیوں میں اتر چکے تھے ایسے ہنس دیتے جیسے کہہ رہے ہوں۔

سیل حیات میں ہیں ہم انسان خار و خس

موجوں سے چند لمحے لڑے اور بہہ گئے۔

لندن میں موسم کیسے دبے پاؤں گزرتے رہے۔ واپسی کے گلاب کیوں مرجھا تے رہے۔ وقت کی ریت کیسے پاؤں تلے سے کھسکتی چلی گئی۔ساحلوں پہ کھڑی کشتیاں ہم نے خود ہی کیوں جلادیں۔ یہ کہانی پھر سہی۔ سر دست تو بس ایک اعتراف حقیقت کہ ہم جسے دیارغیرسمجھتے رہے وہ ہی اپنا گھر ٹھہرا مگر ایک ’نسلی اقلیت‘ کے طور پر۔

اور یوں انیس برس بیت گئے۔
سن نوے میں بچوں زہرہ اور محمد کے ساتھ

سن نوے میں لندن روانہ ہونے سے پہلے بچوں زہرہ اور محمد کے ساتھ۔

چند ماہ قبل ایک دن بی بی سی بش ہاؤس کی کینٹین میں کھانے کے بعد عامر احمد خان ( اردو سروس کے ایڈیٹر) نے اچانک مجھے سے ٹی وی سے وابستہ یادیں مرتب کرنے کو کہا تو لکھنے کی خفتہ خواہش کے باوجود یہ سوچ کر میں خاصی متذبذب تھی کہ زندگی کا یہ موڑ تو برسوں پچھے رہ گیا تھا۔

مگر ہمت بندھانے پر وقت کی فصیل کھولنے کی دیر تھی کہ بیتے موسم سامنے آ کھڑے ہوئے اور پھر تو یقین کیجئے یادوں کا اتنا خزانہ ہاتھ لگا کہ اسے کوزے میں بند کرنا مشکل ہوگیا۔

آپ لوگوں نے خصوصاً نوجوان نسل جس نے مجھے بلکل اپنے بچپن میں دیکھا ہوگا میری کاوش کو جس قدر پذیرائی بخشی وہ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ اظہار ممنونیت میں یہ آخری چند سطریں لکھتے ہوئے میری آنکھوں میں نمی ہے۔ آپ کی محبتوں کا قرض چکانا تو ممکن نہیں البتہ میری یادوں کے سرمائے میں بیش بہا اضافہ ہوا۔ جنھوں نے تنقیدکی ان کی بھی شکر گزار ہوں کہ تنقید سے اکثر زندگی کے وہ پہلو دیکھنے میں مدد ملتی ہے جو شائد میرے لیے قابل ذکر نہ ہوں مگر ان سے آگاہی ضروری ہے۔

آپ سے اجازت چاہوں گی مگر اس امید کے ساتھ کہ جانے کس موڑ پر آپ سے پھر ملاقات ہو جائے۔


--------------


دیار غیر کے موسموں کے رنگ
ماہ پارہ صفدر

ماہ پارہ صفدر

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن

اسلام آباد ہالیڈے ان میں الوداعی تقریب

اسلام آباد ہالیڈے ان میں ہونے والی الوداعی تقریب میں میری والدہ نے بھی شرکت کی

بی بی سی اردو سروس میں آنے سے پہلے ماہ پارہ صفدر پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان پر نیوز پریزینٹر کی حیثیت سے وابستہ تھیں۔ زندگی کے اس ابتدائی سفر سے وابستہ بہت سی یادیں ان کی زندگی کا قیمتی سرمایہ ہیں، بی بی سی اردو ڈاٹ کام پر گزشتہ گیارہ ہفتوں سے انہیں یاداشتوں پر مبنی سلسلہ شائع کیا جا رہا ہے۔ پیش ہے آخری قسط:

اگر میں یہ کہوں تو غلط نہیں ہوگا کہ میں نے جب سن نوے میں پاکستان ٹی وی چھوڑا یہ اپنے عالم شباب پر تھا۔ ٹی وی سکرین پر نظر آنے والے خاص طور پر نیوز کاسٹرز نہ صرف حکمرانوں بلکہ عوام اور اخبارات کی نظروں میں رہتے تھے۔ اسی لیے میرے بی بی سی جانے کی خبریں اکثر اخبارات میں شائع ہوچکی تھیں۔

تقرری سے لیکر 27 جنوری کو لندن روانگی تک ایک سوال جو مجھ سے تواتر سے پوچھا گیا وہ یہ تھا کہ میں ٹی وی اور ملک چھوڑ کر کیوں جارہی ہوں۔ بقول لوگوں کے شہرت و عزت پر لات مار کر میں کفران نعمت کی مرتکب ہورہی تھی۔

احباب کی محبتیں سر آنکھوں پر۔ یہاں پر متعدد تقریبات میں سے دو الوداعی تقریبات کا ذکر میرے اوپر قرض ہے۔

پہلی تقریب اسلام آباد ہالی ڈے اِن میں ظفر بختاری کے زیر اہتمام اور دوسری فدا حسین ملک اور اہلیان چکوال کی جانب سے چکوال میں منعقد کی گئی۔ ان دونوں میں شرکاء کی بھر پور شرکت میرے لیے باعث صد افتخار تو تھی ہی، باعث حیرانگی بھی تھی۔ منکسر مزاجی اپنی جگہ اس دوران میں پوری دیانت داری سے سوچ رہی تھی کہ زندگی میں شائد ایسے مواقع بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتے ہوں گے۔
سابق وزیر شہناز وزیر علی

سابق وزیر شہناز وزیر علی

اسلام آباد میں تو ایک دوست غضنفر مہدی نے شدت جذبات میں یہ بھی کہہ دیا کہ اگر ماہ پارہ اور صفدر کے پاس اسلام آباد میں ذاتی گھر ہوتا تو شائد یہ لوگ بیرون ملک نہ جاتے۔ تقریب کی مہمان خصوصی خواتین کی بہبود کی وزیر شہناز وزیر علی نے مذاقاً کہا کہ مقررین کے تاثرات سن کر تو دل چاہتا ہے کہ کیوں نہ ماہ پارہ صفدر کا جانا رکوا دیا جائے۔ مجھے زیادہ خوشی اس بات کی تھی کہ میری والدہ ان دونوں تقاریب میں شریک تھیں۔

اسلام آباد انٹر نیشنل سے روانگی اور لندن ہیتھرو آمد تک چند گھنٹوں کے سفر میں میری زندگی نے ایک سو اسی ڈگری کا فاصلہ طے کیا تھا۔

اسلام آباد میں سٹیشن کے ایک اہلکار مسافروں کی طویل قطار کو پیچھے چھوڑ کر مجھے سب سے پہلے جہاز تک چھوڑنے آئے، مگر لندن ائر پورٹ سے باہر آنے والے آخری مسافروں میں سے تھی۔ میں دونوں چھوٹے بچوں کی انگلیاں تھامے چلتی ہوئی مسافروں کی قطاروں تک پہنچی تو کوئی پانچ یا چھ سو مسافر میرے آگے تھے۔امیگریشن ڈسک تا پہنچتے پہنچتے کچھ گھنٹے صرف ہوئے۔ اس کے بعد میری درخواست کے باوجود بچوں کی دیکھ بھال کے لیے عارضی ویزے پر میرے ساتھ آنے والی خاتون کے میڈیکل چیک اپ کے باعث چند گھنٹے اور لگے۔ اور یوں لگ بھگ بیس گھنٹے میں یہ سفر مکمل ہوا۔ ملک کی اصول پسندی اپنی جگہ قابل ستائش مگر اسلام آباد بہت یاد آیا۔ دیارِ غیر کے موسموں کے اپنے ہی رنگ تھے۔

لندن میں موسم کیسے دبے پاؤں گزرتے رہے۔ واپسی کے گلاب کیوں مرجھا تے رہے۔ وقت کی ریت کیسے پاؤں تلے سے کھسکتی چلی گئی۔ساحلوں پہ کھڑی کشتیاں ہم نے خود ہی کیوں جلادیں۔ یہ کہانی پھر سہی۔ سر دست تو بس ایک اعتراف حقیقت کہ ہم جسے دیارغیرسمجھتے رہے وہ ہی اپنا گھر ٹھہرا مگر ایک ’نسلی اقلیت‘ کے طور پر۔

پاکستان کی سرزمین چھوڑنے کے ساتھ ہی ٹی وی سے میرا رشتہ بظاہر تو ختم ہوگیا مگر اس کی پرچھائیاں ہمیشہ میرے ساتھ رہیں۔

بی بی سی جوائن کرنے کے فوراً بعد جو تین روزہ تعارفی کورس ہمیں کروایا گیا اس دوران بھی زیادہ تر میرے ٹی وی تجربات پر ہی بات ہوتی ہوئی۔ ایک روز کافی پینے کے وقفے میں شعبہ حالات حاضرہ کی انچارج میری رین ( چند برس قبل ریٹائر ہوچکیں ہیں) بہت دلچسپی سے جنرل ضیا کی ہلاکت کا ذکر کرنے لگیں اور مجھ سے ٹی وی کی انتظامیہ اور عوام کے رد عمل کے بارے میں پوچھا۔ دوران گفتگو ضیا کی ہلاکت کی خبر مجھے نہ پڑھنے دیے جانے پر بولیں کہ عورتوں کو جذباتی اور پروفیشنلی کم تر سمجھنے کا عمل کسی ایک ملک تک محدود نہیں۔

اور پھر اپنے ابتدائی دنوں کو یاد کرتے ہوئے بولیں ”میں فٹ بال کی دیوانی تھی۔ مجھے اس بارے میں سٹوری لکھنے کا بے انتہا شوق تھا۔ لیکن فٹ بال اور سنجیدہ موضوعات پر میری لکھی ہوئی سٹوری دیکھ کر ایڈیٹر حضرات یہ کہہ کر پھینک دیا کرتے تھے کہ عورتوں کو چاہیے وہ نسوانی امراض یا بچوں کے پیدائش جیسے موضوعات پر لکھا کریں”۔

ابتدائی چند ماہ کے دوران لندن کی سرد موسموں اور دھند رستوں پر چلتے ہوئے ملک میں گزرے شام و سحر جس شدت سے یاد آئے وہ اس مصرعے میں ڈھل گئے۔

محبتوں کی چاندنی کھلی ہے اپنے دیس میں

پرائے در نظر نظر نگر نگر دھواں ملے
ماہ پارہ صفدر ایک تقریب میں

ماہ پارہ صفدر ایک تقریب میں

کئی مرتبہ اپنا تعارف کروانا یاد نہیں رہا کہ برسوں تک اپنے تعارف میں یہ سننے کی عادی ہوچکی تھی۔ یہ چہرہ اور آواز اپنی شناخت آپ ہے۔ چہرہ اور آواز تو وہ ہی تھی مگر شناخت کھو چکی تھی۔ بھیڑ میں احساس تنہائی اور بھی بڑھ جاتا تھا۔

اکثر دوستوں سے میری یہ بحث رہتی تھی کہ لوگ کیسے یہاں رہ جاتے ہیں۔ میں تو چار برس مکمل کرکے ضرور واپس جاؤنگی۔ مگر جو لوگ میرے سے پہلے اس جزیرے کے پانیوں میں اتر چکے تھے ایسے ہنس دیتے جیسے کہہ رہے ہوں۔

سیل حیات میں ہیں ہم انسان خار و خس

موجوں سے چند لمحے لڑے اور بہہ گئے۔

لندن میں موسم کیسے دبے پاؤں گزرتے رہے۔ واپسی کے گلاب کیوں مرجھا تے رہے۔ وقت کی ریت کیسے پاؤں تلے سے کھسکتی چلی گئی۔ساحلوں پہ کھڑی کشتیاں ہم نے خود ہی کیوں جلادیں۔ یہ کہانی پھر سہی۔ سر دست تو بس ایک اعتراف حقیقت کہ ہم جسے دیارغیرسمجھتے رہے وہ ہی اپنا گھر ٹھہرا مگر ایک ’نسلی اقلیت‘ کے طور پر۔

اور یوں انیس برس بیت گئے۔
سن نوے میں بچوں زہرہ اور محمد کے ساتھ

سن نوے میں لندن روانہ ہونے سے پہلے بچوں زہرہ اور محمد کے ساتھ۔

چند ماہ قبل ایک دن بی بی سی بش ہاؤس کی کینٹین میں کھانے کے بعد عامر احمد خان ( اردو سروس کے ایڈیٹر) نے اچانک مجھے سے ٹی وی سے وابستہ یادیں مرتب کرنے کو کہا تو لکھنے کی خفتہ خواہش کے باوجود یہ سوچ کر میں خاصی متذبذب تھی کہ زندگی کا یہ موڑ تو برسوں پچھے رہ گیا تھا۔

مگر ہمت بندھانے پر وقت کی فصیل کھولنے کی دیر تھی کہ بیتے موسم سامنے آ کھڑے ہوئے اور پھر تو یقین کیجئے یادوں کا اتنا خزانہ ہاتھ لگا کہ اسے کوزے میں بند کرنا مشکل ہوگیا۔

آپ لوگوں نے خصوصاً نوجوان نسل جس نے مجھے بلکل اپنے بچپن میں دیکھا ہوگا میری کاوش کو جس قدر پذیرائی بخشی وہ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ اظہار ممنونیت میں یہ آخری چند سطریں لکھتے ہوئے میری آنکھوں میں نمی ہے۔ آپ کی محبتوں کا قرض چکانا تو ممکن نہیں البتہ میری یادوں کے سرمائے میں بیش بہا اضافہ ہوا۔ جنھوں نے تنقیدکی ان کی بھی شکر گزار ہوں کہ تنقید سے اکثر زندگی کے وہ پہلو دیکھنے میں مدد ملتی ہے جو شائد میرے لیے قابل ذکر نہ ہوں مگر ان سے آگاہی ضروری ہے۔

آپ سے اجازت چاہوں گی مگر اس امید کے ساتھ کہ جانے کس موڑ پر آپ سے پھر ملاقات ہو جائے۔


------------


شعبہ خبر سے وابستگی کے دوران دو خبریں ایسی تھیں جن میں سے ایک پڑھ کر افسوس ہوا اور ایک نا پڑھ کر۔ ایک جمہوریت کی موت تھی اور ایک آمریت کی۔

دونوں خبریں اپنی اپنی جگہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گئیں۔ ایک ملک کے منتخب وزیر اعظم کے قتل کے باب میں جس کے خون کے چھینٹے انصاف کے دامن پر بھی نظرآتے ہیں۔ تو دوسری ایک آمر کے انجام کے باب میں۔

تو چلیئے پہلے یہ خبر جسے چار اپریل کو ریڈیو پر سن کر میرے بہت سے لمحے تو بے یقینی کی کیفیت میں گزرے، دل جیسے کہہ رہا ہو:

یا الہی مرگ یوسف کی خبر سچی نہ ہو

مگر حقیت کے ادراک پر آنکھ سے بے اختیار آنسو چھلک پڑے۔ یہ خبر پہلی مرتبہ ریڈیو پاکستان کے دن کے گیارہ بجے کے بلیٹن میں نشر ہوئی جس کے مطابق بھٹو صاحب کو ہمارے گھر سے تین میل کے فاصلے پر راولپنڈی ڈسٹرکٹ جیل میں رات کے دو بجے پھانسی دی جا چکی تھی۔

تاہم فوج کی جانب سے نو گھنٹے بعد ہینڈ آؤٹ اس وقت جاری کیا گیا جب انہیں بندوقوں کے سائے میں چند لوگوں کی موجودگی میں گڑی خدا بخش بھٹو میں دفنایا جاچکا تھا۔

پھانسی کی خبر جاری ہونے کے بعد ہمارے نیوز پروڈیوسر کا خاصی گھبراہٹ زدہ آواز میں فون آ گیا۔ ’خبر تو سن لی ہوگی آپ نے۔ بھٹو کی پھانسی کی خبر پڑھ لیں گی آپ۔‘ میرے اطمینان دلانے پر ان کی تسلی نہیں ہوئی۔ اب کے خود نیوز کنٹرولر حبیب اللہ فاروقی لائن پر تھے ’دیکھیں بی بی یہ خبر پڑھ لیں گی آپ؟ کہیں رو تو نہیں پڑیں گی؟‘

مگر یہی تو تربیت تھی کہ دلی کیفیت چہرے اور آواز میں جھلکنے نہ پائے۔

شام پانچ بجے کا بلیٹن میں نے بلکل معمول کے مطابق پڑھا۔ یہ خبر نپے تلے انداز میں بنائی گئی تھی یا شائد بار بار ٹوکے جانے کے دباؤ میں خود کو میں زیادہ مجتمع کرچکی تھی۔ نو بجے میرے ساتھ خالد حمید تھے۔ سرخیاں میں نے پڑھیں اور تفصیلی خبر خالد نے پڑھنی شروع کی۔ لیکن چند سطریں پڑھنے کے بعد آواز میں لرزش ہوئی جیسے گلے میں کچھ اٹک سا جائے۔ انہوں نے بمشکل جملہ مکمل کیا اور اگلہ جملہ شروع ہونے میں وقفہ سب نے محسوس کیا۔

میک روم میں میک اپ اتارتے ہوئے خالد خود ہی بولے ’میں تو بمشکل یہ خبر پڑھ پایا۔‘ میں نے پوچھا خالد کیا تم سے بھی پہلے فاروقی صاحب نے پوچھا تھا کہ خبر پڑھ سکوگے یا نہیں۔ مگر اس کا جواب نفی میں سن کر حیرت ہوئی کہ پھر مجھ سے کیوں؟

اس خبر کے ساتھ انہیں دفنائے جانے کی چند سیکنّڈ کی فٹیچ دکھائی گئی جس میں بند تابوت میں چند لمحوں کے لیے ان کے چہرے کی جھلک بھی تھی۔ جس کا مقصد لوگوں کو آگاہ کرنا نہیں یہ باور کرانا تھا کہ دفن ہونے والی لاش ذوالفقار علی بھٹو کی ہی ہے۔ کیا بے کسی تھی لاش پر۔

بہت بری خبر ہے جنرل ضیاء فوجی طیارے کے حادثے میں ’ شہید‘ ہوگئے ہیں۔ آج خبر نامے میں اس کے سوا کوئی خبر نہیں جائیگی اور یہ اظہر لودھی پڑھیں گے۔ یہ بڑی سنجیدہ اور افسوس ناک خبر ہے۔ یہ خبر کوئی ’مرد‘ ہی پڑھے تو بہتر ہے

شکور طاہر

مجھے خیالوں میں اس لاش کے پیچھے ماؤ زے تنگ کیپ پہنے وہ جواں سال بھٹو نظر آیا جسے میں نے اپنے بچپن نہیں ہاں لڑکپن میں چند گز کے فاصلے سے دیکھا اور سنا تھا۔ سن اڑسٹھ یا انتہر میں ذوالفقار علی بھٹو اپنی پیپلز پارٹی کی تنظیم کے سلسلے میں سر گودھا آئے تو چند مڈل کلاس لوگوں نے بھٹو صاحب کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور پزیرائی کی تھی۔ مسعود زاہدی، ممتاز کاہلو رکن اسمبلی اور خود میری والدہ شمس الزہرہ زیدی خواتین کی مخصوص نشتوں کے لیے امیدوار بھی تھیں۔ بھٹو ہمارے عزیز ایڈوکیٹ مسعود زاہدی ہی کے گھر ٹھہرے تھے اور سرگودھا کے سیٹلائٹ ٹاؤن میں ہمارے گھر سے ذرا ہی فاصلے پر ہمارے خاندانی دوست علی احمد کاظمی کے گھر خواتین سے خطاب کرنے آئے تھے۔ میں بھی اپنی والدہ اور بڑی بہن فوزیہ کے ساتھ انہیں سننے گئی تھی۔

مگر پھر وہ ہی ہوا جو اکثر ہوتا آیا ہے۔

منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔

ستر کے انتخابات میں نا قابل یقین مقبولیت کے بعد پیپلز پارٹی مڈل کلاس سے دور اور وڈیروں اور جاگیرداروں کی مقبوضہ بنتی چلی گئی۔

مگر یہ مڈل کلاس عوام اس شخص کو اپنے ذہنوں سے دور نہ کر سکی جو ان کے لیے جمہوریت کی علامت بن کر ابھرا تھا اور اس نے انہیں اور کچھ نہیں تو کم از کم پہلی مرتبہ ان کو ان کے ووٹ کی اہمیت کا احساس دلایا تھا۔

وہ اس شخص بھٹوکو بچا تو نہیں پائے مگر لفظوں کی صورت میں عقیدت کے جتنے نذرانے پیش کر سکتے تھے وہ کیے۔ یادگاری ریفرنس کی ایک ایسی ہی نشست میں اختر حسین جعفری سے بھٹو کی پھانسی پر لکھی طویل نظم سنی تھی۔ تین سطریں آپ بھی سنیئے:

تجھ کو کس پھول کا کفن ہم دیں
تُو جدا ایسے موسموں میں ہوا

جب درختوں کے ہاتھ خالی تھے
سترہ اگست مجھے پروفیشنل عورت کے ساتھ امتیازی سلوک کی بد ترین مثال کے طور پر بھی یاد رہے گا۔ مگر اتنا ضرور ہوا کہ اس نے مجھے جنسی تعصبات سے مقابلہ کرنے کا وہ حوصلہ دیا جس کی لو آجتک بھڑک رہی ہے

وہ خبر جو میں نہیں پڑھ سکی۔ وہ جنرل ضیاء کی ہلاکت کی خبر تھی۔ جنرل ضیا کا فوجی طیارہ سترہ اگست سن 88 کو لگ بھگ تین بجے کریش ہوا۔ اس دن خبر نامے پر میری اور اظہر لودھی کی ڈیوٹی تھی۔

شام سات بجے تک ہم سب کو صرف اتنا معلوم تھا کہ کوئی بہت بری خبر ہے۔ میں اوپر نیوز روم میں پہنچی تو افراتفری کا عالم دیدنی تھا۔ جنرل ضیاء کی فٹیج اور پرانی خبروں کے سکرپٹ نکالے جا رہے تھے، چھان پھٹک ہورہی تھی۔ اتنے میں چیف ایڈیٹر شکور طاہر مجھے دوسرے کمرے میں لے گئے اور بولے کہ ’بی بی بہت بری خبر ہے جنرل ضیاء فوجی طیارے کے حادثے میں شہید ہوگئے ہیں۔ آج خبرنامے میں اس کے سوا کوئی خبر نہیں جائیگی اور یہ اظہر لودھی پڑھیں گے۔‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا کیوں میں کیوں نہیں۔ شکور طاہر نے کہا ’بی بی آپ لوگوں نے میک اپ وغیرہ کیا ہوتا ہے ذرا اچھا نہیں لگتا، یہ بڑی سنجیدہ خبر ہے۔ کوئی ’مرد‘ ہی پڑھے تو بہتر ہے۔‘ میں نے کہا شکور صاحب جب خانہ کعبہ پر حملہ ہوا تھا۔ مجھے پہلے ہدایت کردی گئی تھی کہ کپڑے بھی بہت سادا ہوں اور میک اپ بھی انتہائی کم۔ آج آپ نے پہلے کیوں نہیں بتایا۔ بتا دیتے میں میک اپ نہ کرواتی اور یہ غیر سنجیدہ خبریں کونسی ہوتیں ہیں۔

بھلا میرا یہ احتجاج ان کا فیصلہ کہاں بدلوا سکتا تھا۔ میں نیوز روم میں آکر رائیٹر اور اے پی کے پرنٹ پڑھنے لگی۔ اس دن خبر نامہ کیا ضیا نامہ تھا۔ واقعے کی خبر، ان کے حالات زندگی، غیر ملکی دوروں کا احوال اور شخصیات کے تعزیتی پیغامات اور نہ جانے کیا کیا۔

میری نظروں میں چار اپریل 1979 کا منظر اتر آیا اور میں نے سوچا ایک سولین رہنما کی اتنی بے توقیری کہ اسے سولی پر چڑھا دیا جائے اوراس کی محض چند سطروں کی خبر نشر ہو اور ایک آمر کی اتنی عزت افزائی کہ وہ ہلاک ہو تو ’شہید‘ اور خراج تحسین کے ڈھیر۔

سترہ اگست مجھے پروفیشنل عورت کے ساتھ امتیازی سلوک کی بد ترین مثال کے طور پر بھی یاد رہے گا۔ مگر اتنا ضرور ہوا کہ اس سلوک نے مجھے جنسی تعصبات سے مقابلہ کرنے کا وہ حوصلہ دیا جس کی لو آج تک بھڑک رہی ہے۔



---------

ذرا مڑ کے پیچھے دیکھتی ہوں تو یہ سوچ کر ذہن کو جھٹکا سا لگتا ہے کہ وقت کے ساتھ اقدار کس قدر تیزی سے تبدیل ہوئیں۔

کتنی سرعت سے بدلتا ہے مزاجِ روزگار۔ بالکل بدلتے موسموں کی طرح۔

کلِک ’چند یادوں کے سفینے ہیں سلامت اب تک‘(پہلی قسط)

اب ٹی وی پر کام مل جانا ایک دم آپ کے قد وقامت میں اضافہ کر دیتا ہے۔ آپ یک دم سے معتبر ہو جاتے ہیں۔ مگر آج سے کتنا مختلف تھا وہ زمانہ، جب ستر کے عشرے میں ٹی وی اپنے قیام کے ابتدائی عشرے سے گزر رہا تھا۔

میری والدہ جو لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم اور ملازمت اختیار کرنے کی زبردست داعی تھیں، انہیں جب میں نے بتایا کہ ٹی وی پر جانا چاہتی ہوں، تو انہوں نے مجھے بالکل یوں دیکھا جیسے دل میں کہہ رہی ہوں لڑکی تیرا دماغ تو نہیں چل گیا۔ ظاہر ہے کہ یہ بات ہے کوئی تین عشرے قبل کی جب لڑکیوں کے لیے بس دو چار ہی تو مخصوص شعبے تھے۔ سکول یا کالج کی استاد یا پھر ڈاکٹر، بس یہی دو تین ’پروفیشن‘ تھے۔

ہمارے ایک کزن صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اس لڑکی کی تو خیر شادی کے لیے اب رشتے کیا ہی آئیں گے۔ اس کی بدنامی کی وجہ سے اس کی بہنوں کو بھی کوئی نہیں پوچھے گا

میرے گھر میں بھی رویہ کچھ زیادہ مختلف نہیں تھا۔ میری والدہ جو چاہتی تھیں کہ میں ڈاکٹر بنوں ورنہ سول سروسز کے امتحان یعنی سی ایس ایس پاس کر کے بابو افسر بن جاؤں، میرے ٹی وی میں جانے کا سن کر سیخ پا ہوگئیں اور بڑے بہنوئی نے تو غصے میں بات کرنی ہی چھوڑ دی ( یہاں یہ بھی بتادوں کہ کیونکہ ہمارا بھائی کوئی نہیں تھا۔ ہم چھ بہنیں ہیں۔ لہذا ہمارے خاندان میں سب سے پہلے آنے والے میرے بہنوئی حبیب مرزا کو خاندان میں بڑے بھائی کا مقام حاصل تھا۔)

ہمارے ایک کزن صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اس لڑکی کی تو خیر شادی کے لیے اب رشتے کیا ہی آئیں گے، اس کی بدنامی کی وجہ سے اس کی دوسری بہنوں کو بھی کوئی نہیں پوچھےگا۔ ظاہر ہے یہ سب والدہ کی تشویش میں مزید اضافے کا سبب بنا اور ٹی وی پر جانے کی مخالفت بھی بڑھی۔ یہ اور بات ہے کہ بعد کے حالات نے ان اندیشوں کو غلط ثابت کردیا۔

میری والدہ مہ پارہ صفدر

والدہ شمس الزہرا زیدی میرے ٹی وی پر جانے کا سن کر ناراض ہوگئیں

بہر حال کئی مہینوں کی منت سماجت کے بعد ٹی وی پر جانے کی اجازت تو مل گئی مگر اس شرط کے ساتھ کہ ’راتوں کی ریکارڈنگ اور دیر سے گھر آنا نہیں چلے گا۔ اور ہاں تماری تعلیم بالکل نظر انداز نہیں ہونی چاہیے‘ (میں ان دنوں یونیورسٹی میں تھی)۔

ان شرائط کی روشنی میں خبروں میں قسمت آزمائی کے لیے ایک روز میں ایڈیٹر خالد محمود ربانی سے ملنے کے لیے لاہور ٹیلی وژن سٹیشن کے نیوز روم پہنچی۔ بہت اچھی طرح ملے، حالات حاضرہ سے میری دلچسپی سے قدرے مطمئن ہونے کے بعد کہنے لگے کہ نیوز کاسٹر کے انتخاب کے لیے ہر مہینے آڈیشن ہوتے ہیں۔ مگر کوئی معیار پر پورا ہی نہیں اترتا۔ کیوں بھلا؟ میں نے خاصا بے تکا سا سوال کردیا۔ خبریں پڑھنا کون سا اتنا مشکل کام ہے۔ میں سمجھ رہی تھی یہ بھی کالج کی کوئی تقریر جیسا معاملہ ہے۔

مرحوم محمود ربانی صاحب میری کم علمی پر مسکرا دیے اور بولے کہ بی بی نیوز کاسٹر کے لیے لازمی ہے کہ اسے خبر سے مکمل آگاہی ہو تاکہ اس کی ادائیگی وہ اتنے بھرپور تاثر کے ساتھ کرے کہ لوگ اس خبر پر یقین کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ خبر پڑھتے ہوئے اس خبر کے ساتھ آپ کی کسی قسم کی وابستگی کا گمان بھی نہ ہو۔

’کسی پسندیدہ شخصیت کی موت خبر پڑھتے ہوئے آپ کے لہجے سے دکھ کا کوئی اظہار نہ ہو۔ گویا سینے میں طوفان بھی اگر برپا ہو تو آپ کا چہرہ اور لہجہ پرسکون نظر آئے۔ زیر زبر یعنی تلفظ درست ہو اور آواز معتبر ہو۔ لب ولہجہ شائستہ اور الفاظ کی ادائیگی واضح ہو۔ شکل وصورت خوبصورت نہیں مگر خوشگوار تاثر رکھتی ہو۔‘

کسی پسندیدہ شخصیت کی موت خبر پڑھتے ہوئے آپ کے لہجے سے دکھ کا کوئی اظہار نہ ہو۔ گویا سینے میں طوفان بھی اگر برپا ہو تو آپ کا چہرہ اور لہجہ پرسکون نظر آئے۔ زیر زبر یعنی تلفظ درست ہو اور آواز معتبر ہو۔ لب ولہجہ شائستہ اور الفاظ کی ادائیگی واضح ہو۔ شکل وصورت خوبصورت نہیں مگر خوشگوار تاثر رکھتی ہو

خالد محمود ربانی

اور پھر تنقیدی نظروں سے دیکھنے کے بعد بولے ’بی بی خبریں پڑھنا بچوں کا کام نہیں۔ بہت ہی سنجیدہ عمل ہے۔ اس لیے نیوز کاسٹر کی شخصیت بردبار نظر آنی چاہیے‘۔

یہ سب شرائط سن کر میں نے دل میں سوچا چلو ماہ پارہ بی بی یہ سب شرطیں تو پوری ہونے سے رہیں۔ یہاں تو کام ملنے والا نہیں۔ آڈیشن تو پاس ہونے سے رہا۔ دل میں سوچا کہ اماں کی خواہش تو ویسے ہی پوری ہوگئی۔ تو چلو پھر جو اماں کہہ رہی ہیں اسی امتحان کی تیاری کریں۔ مگر نجانے وہ ذات پر حد سے زیادہ اعتماد تھا یا ارادے کی طاقت کہ میں نے فوراً ہی شکست خوردہ سوچ کو اس خود کلامی کے ساتھ جھٹک ڈالا کہ

’ستارہ کیا میری تقدیر کا پتہ دے گا

وہ ِخود فراخی افلاک میں ہے خوار و زبوں‘

اور میں نیوز آڈیشن کے معیار پر پورا اترنے کا عزم لیے واپس ہوئی۔

پھر ملاقات ہوگی۔۔


-------------

ایک دن میں فلم کے ساتھ خبر ( جیسے اب فٹیج کہا جاتا ہے) کی ریہرسل کے لیے ایڈیٹنگ روم میں داخل ہوئی تو فلم ایڈٹ کے دوران بار بار یہ آواز سنائی دی۔ ’یہ ’ہل‘ کی تصویر کٹو جی کٹو( کاٹوجی کاٹو) ’آواز بھی گھٹ کر یار‘۔ ہمارے قارئین بخوبی سمجھتے ہیں کہ کسی بھی خبری واقعے یا تقریب کی خاصی طویل فلم شوٹ کرلی جاتی ہے، پھر ایڈیٹنگ روم میں اس طویل کالے فیتے نما ریل میں سے تحریر شدہ خبر کے مطابق کچھ حصے منتخب کرلیے جاتے تھے۔ خیر اب تو ڈیجیٹل کیمرے آچکے ہیں ان میں کوئی ریل نہیں ہوتی تاہم ایڈیٹنگ اب بھی ہوتی ہے۔

عام حالات میں ایڈیٹنگ کرنا یا خبر کو مختصر کرنا یا ادارتی نکتہ نظر سے خبر کے کچھ حصے حذف کرنا ذرائع ابلاغ کے معمولات میں شامل ہے۔ ویسے بھی صحافت کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ ’وین ان ڈاؤٹ کٹ اِٹ آؤٹ‘ یعنی اگر کسی خبر کے بارے میں ذرا بھی شک ہو تواسے نکال دو۔ مگر پی ٹی وی لاہور کے ایڈیٹنگ روم میں معاملہ کچھ اور تھا۔ یہاں یہ ایڈیٹنگ حکام بالا کی ہدایات کے مطابق کی جارہی تھی۔

مگر یہ معاملہ جاننے کے لیے آپ کو پہلے میرے ذہن کے پردے پر چلنے والی وہ فلم دیکھنی ہوگی جسے دیکھنے کے بعد آپ کو ایڈیٹنگ روم کا منظر بھی بلکل صاف نظر آنے لگے گا۔

ہوا یوں کہ سات جنوری سن ستتر کی ایک سرد شام کو ملک میں آئندہ انتخابات کا اعلان کردیا گیا۔ جس کے مطابق قومی اسبملی کے لیے ووٹنگ سات مارچ اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے دس مارچ کو ہونا قرار پائی۔ یہ اعلان کوئی ایسا اچانک بھی نہیں تھا۔ انتخابات کے بارے میں کئی ہفتوں سے پیش گوئی کی جا رہی تھی۔ نیوز روم میں اس طرح کی باتیں ہوتی رہتی تھیں’ کہ بھٹو صاحب کو یہ یقین ہے یا انھیں دلوا دیا گیا ہے کہ حزب اختلاف اس قدر منتشر ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت اس وقت ملک گیر سطح پر پیپلز پارٹی کا مقابلہ نہیں کرسکتی، وغیرہ‘۔

ٹی وی پر حزب اختلاف کی سرگرمیوں کی رپورٹنگ شروع ہوگئی۔ مگر نیوز کے عملے کو یہ خصوصی ہدایات تھیں کہ پاکستان قومی اتحاد ( پی این اے) کے انتخابی نعرے اور انتخابی نشان ’ہل‘ ( کھیتوں میں چلانے والا) کو حتٰی الامکان نہ تو سکرین پر دکھایا جائے اور رپورٹ کے دوران نہ اس کا ساؤنڈ یعنی لفظ ’ہل’ کسی کو سنائی پڑے۔

مگر یہ وہ تبصرے تھے جو پس پردہ ہی رہتے تھے۔ جو کچھ نشر ہوتا تھا وہ یہ کہ انتخابات تو دراصل سن تہتر کے ائین کے مطابق اکتوبر اٹھہتر میں ہونے تھے مگر یہ بھٹو کی جمہوریت پسندی ہے کہ انھوں نےقبل از وقت انتخابات کا فیصلہ کیا وغیرہ، وغیرہ (حالانکہ یہ انتخابات کوئی سات برس بعد ہورہے تھے)۔

یہ الفاظ پڑھتے پڑھتے لگ بھگ مجھے زبانی یاد ہوچکے تھے کہ بھٹو جیسا زیرک، معتبر اور سیاسی قد و قامت کا کوئی رہنما پاکستان میں تو کیا پورے عالم اسلام میں نظر نہیں آتا۔

لیکن انتخابات کا اعلان ہوتے ہی کوئی نو مختلف پارٹیوں نے پاکستان نیشنل الائینس پی این اے کے نام سے انتخابی اتحاد قائم کرلیا، جس میں نواب زادہ نصراللہ خان کی جمہوری وطن، اصغر خان کی تحریک استقلال کے علاوہ تینوں مذہبی جماعتیں یعنی جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام اور شاہ احمد نورانی کی جمعیت علماءِ پاکستان اور کچھ چھوٹی چھوٹی جماعتیں شامل ہوگئیں۔ ویسے اتحاد میں اگر سچ پوچھیں تو ان تینوں مذہبی جماعتوں کے کارکن ہی زیادہ نمایاں نظر آتے تھے۔ اتحاد کا انتخابی نشان ’ہل‘ تھا۔ اسی ہل کی تصویر اور آواز، یعنی نعرے کی آوازیں ایڈیٹنگ کے لیے مسئلہ بنی ہوئی تھی۔

حزب اختلاف کا انتخابی جلوس ٹی وی سٹیشن کے سامنے سے اکثر یہ انتخابی نعرے لگاتا ہوا گزرا کرتا تھا ’سات مارچ دس مارچ۔ بھٹو کوئیک مارچ کوئیک مارچ‘

ایک دن میں نے دیکھا کہ ٹی وی کی عمارت سے قدرے دور تحریک استقلال کے جاوید ہاشمی میگا فون پر ریلی سے تقریر کر رہے تھے۔

جی ہاں میں بات کررہی ہوں موجودہ مسلم لیگ نواز کے سینئر رہنما جاوید ہاشمی کی۔ اپنی سیاسی زندگی کی ابتدا میں وہ ریٹائرڈ ائیر مارشل اصغر خان کی تحریک استقلال میں بھی شامل رہے۔ ملتان کے اس مڈل کلاس جواں سال سیاست داں سے خاصی امیدیں وابستہ کی جارہی تھی۔ گو کہ بعد میں جنرل ضیاالحق کی کابینہ میں شامل ہونے کے انکے فیصلے سے بہت ہی مایوسی ہوئی۔
ماہ پارہ

جاوید ہاشمی کو پنجاب یونیوسٹی لاہور سے فارغ اتحصیل ہوئے چند برس ہی گزرے ہونگے۔ خوش شکل ہونے کے ساتھ ساتھ شعلہ بیاں مقرر بھی تھے۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ مجھے تو وہ اس وقت احمد ندیم قاسمی کے اس شعر کی کچھ کچھ عملی تصویر لگے۔

فقط اس شوق میں پوچھی ہیں ہزاروں باتیں

میں تیرا حسن تیرے حسن بیاں تک دیکھوں

ویسے کہیں یہ نہ سمجھ لیجیے گا کہ قاسمی صاحب نے یہ شعر ان کے لیے لکھا تھا۔ خیر میں رک کر جاوید ہاشمی کی تقریر سننے لگی۔ مجھے ان کے الفاظ درست طور پر یاد نہیں مگر لب لباب یہ تھا کہ کہ ریڈیو اور ٹی وی پر صرف حکومت وقت کی تشہیر ہورہی ہے۔ یہ سراسر زیادتی ہے۔ اور یہ کہ حزب اختلاف کی انتخابی سرگرمیوں کو بھی کوریج دی جائے۔

معلوم نہیں کہ پی این اے کے رہنماوں کی آتشی تقریروں کا اثر تھا، اتحاد کا دباؤ تھا یا کچھ اور۔۔۔۔۔

ٹی وی پر پی این ایے کی انتخابی سرگرمیوں کی رپورٹنگ تو شروع ہوگئی۔ مگر نیوز کے عملے کو ان خصوصی ہدایات کے ساتھ کہ پاکستان قومی اتحاد ( پی این اے) کے انتخابی نعرے اور انتخابی نشان ' ہل' کو حتی الامکان سکرین پرنہ دکھایا جائے اور مختصر رپورٹ کے دوران اس کا ساؤنڈ یعنی لفظ ’ ہل‘ بھی کسی کو کم کم ہی سنائی پڑے۔

ایڈیٹنگ کے دوران فوٹیج میں جہاں کہیں ’ہل‘ نظر آتا تھا یا اس کا نعرہ سنائی دیتا تھا نیوز پروڈیوسر کی آواز بلند ہوتی تھی۔’ کٹو کٹو یار (کاٹو کاٹو یار ) یہ ہل نہ کٹا تو اپنی نوکری کٹ جائیگی‘ اور کبھی نعروں یعنی ’ہل ہمارا جیتے گا‘ وغیرہ پر رپورٹر کی آواز حاوی کردی جاتی تھی۔

ریڈیو پر لفظ ’ہل‘ کے بارے میں بوکھلاہٹ کا عالم یہ تھا کہ ایک اقتصادی رپورٹ میں جب تجـزیہ نگار نے تین مرتبہ کہا کہ اس مسئلے کا اس کے سوا کوئی ’حل‘ نہیں تو ریڈیو کے ایک جونیئر اہلکار نے کہہ دیا کہ یہ ٹاک قابل نشر نہیں۔ اس میں بار بار ’حل‘ کا ذکر ہے۔

ستتر کے انتخابات میں ایک روزنامے کی جانب سے دھاندلیوں کے مسلسل الزامات کے باوجود ویسی بےضابطگیاں نظر نہیں آئیں جیسی کہ جنرل ضیا الحق کے ریفرنڈم یا بعد کے انتخابات کے دوران باقاعدہ طور پر سرکاری سطح پر کی جاتی رہیں۔ دروغ بر گردن راوی جنرل ضیا کے ریفرنڈم میں تو سنا تھا فرشتوں نے ووٹ ڈالے تھے۔

ایسے ہی سلسلوں کے چلتے سات مارچ کا معرکۃ آرا دن آ پہنچا۔ اس دن ٹی وی پر خوب رونق تھی۔ سٹوڈیوز میں ایک بڑا سا خوبصورت سیٹ لگایا گیا تھا۔ چار کیمرے بیک وقت براہ راست الیکشن کی نشریات کی کوریج کر رہے تھے۔ موسیقی کے خصوصی پروگرام اور مزاحیہ خاکے خاص الیکشن کی مناسبت سے تیار ہوئے تھے، نشریات کا دورانیہ بڑھا دیا گیا تھا، خاصا جشن کا سا سماں تھا۔ تاہم اگلے ہی دن یہ رونق ماند پڑھ گئی۔

اس دن دھاندلیوں کے الزامات عائد کرتے ہوئے حزب اختلاف نے نہ صرف نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا بلکہ صوبائی اسمبلیوں کی ووٹنگ کا بھی بائیکاٹ کر دیا گیا۔ اس کے باوجود کم از کم ٹی وی اور ریڈیو کی حد تک تو انتخابات بخیر و خوبی انجام پائے۔ مگر حقیقت یہ تھی کہ نہ جیتنے والی پارٹی کو اپنی فتح کایقین تھا اور نہ ہارنے والوں کو اپنی شکست کا۔

ایک قومی روزنامہ شدت سے دھاندلی کے الزاما ت عائد کرتا رہا۔ مگر انفرادی یا مقامی سطح پر واقعات کے سوا ایسی کسی منظم دھاندلی کے شواہد پیش نہیں کیے گئے جیسے بعد میں جنرل ضیا الحق کے ریفرنڈم یا بعد کے انتخابات میں باقاعدہ طور پر سرکاری سطح پر کی جاتی رہی۔

جنرل ضیا الحق کے ریفرنڈم میں تو دروغ بر گردن راوی سنا تھا کہ فرشتوں نے بھی ووٹ ڈالے۔


------------

ایک دن میں فلم کے ساتھ خبر ( جیسے اب فٹیج کہا جاتا ہے) کی ریہرسل کے لیے ایڈیٹنگ روم میں داخل ہوئی تو فلم ایڈٹ کے دوران بار بار یہ آواز سنائی دی۔ ’یہ ’ہل‘ کی تصویر کٹو جی کٹو( کاٹوجی کاٹو) ’آواز بھی گھٹ کر یار‘۔ ہمارے قارئین بخوبی سمجھتے ہیں کہ کسی بھی خبری واقعے یا تقریب کی خاصی طویل فلم شوٹ کرلی جاتی ہے، پھر ایڈیٹنگ روم میں اس طویل کالے فیتے نما ریل میں سے تحریر شدہ خبر کے مطابق کچھ حصے منتخب کرلیے جاتے تھے۔ خیر اب تو ڈیجیٹل کیمرے آچکے ہیں ان میں کوئی ریل نہیں ہوتی تاہم ایڈیٹنگ اب بھی ہوتی ہے۔

عام حالات میں ایڈیٹنگ کرنا یا خبر کو مختصر کرنا یا ادارتی نکتہ نظر سے خبر کے کچھ حصے حذف کرنا ذرائع ابلاغ کے معمولات میں شامل ہے۔ ویسے بھی صحافت کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ ’وین ان ڈاؤٹ کٹ اِٹ آؤٹ‘ یعنی اگر کسی خبر کے بارے میں ذرا بھی شک ہو تواسے نکال دو۔ مگر پی ٹی وی لاہور کے ایڈیٹنگ روم میں معاملہ کچھ اور تھا۔ یہاں یہ ایڈیٹنگ حکام بالا کی ہدایات کے مطابق کی جارہی تھی۔

مگر یہ معاملہ جاننے کے لیے آپ کو پہلے میرے ذہن کے پردے پر چلنے والی وہ فلم دیکھنی ہوگی جسے دیکھنے کے بعد آپ کو ایڈیٹنگ روم کا منظر بھی بلکل صاف نظر آنے لگے گا۔

ہوا یوں کہ سات جنوری سن ستتر کی ایک سرد شام کو ملک میں آئندہ انتخابات کا اعلان کردیا گیا۔ جس کے مطابق قومی اسبملی کے لیے ووٹنگ سات مارچ اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے دس مارچ کو ہونا قرار پائی۔ یہ اعلان کوئی ایسا اچانک بھی نہیں تھا۔ انتخابات کے بارے میں کئی ہفتوں سے پیش گوئی کی جا رہی تھی۔ نیوز روم میں اس طرح کی باتیں ہوتی رہتی تھیں’ کہ بھٹو صاحب کو یہ یقین ہے یا انھیں دلوا دیا گیا ہے کہ حزب اختلاف اس قدر منتشر ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت اس وقت ملک گیر سطح پر پیپلز پارٹی کا مقابلہ نہیں کرسکتی، وغیرہ‘۔

ٹی وی پر حزب اختلاف کی سرگرمیوں کی رپورٹنگ شروع ہوگئی۔ مگر نیوز کے عملے کو یہ خصوصی ہدایات تھیں کہ پاکستان قومی اتحاد ( پی این اے) کے انتخابی نعرے اور انتخابی نشان ’ہل‘ ( کھیتوں میں چلانے والا) کو حتٰی الامکان نہ تو سکرین پر دکھایا جائے اور رپورٹ کے دوران نہ اس کا ساؤنڈ یعنی لفظ ’ہل’ کسی کو سنائی پڑے۔

مگر یہ وہ تبصرے تھے جو پس پردہ ہی رہتے تھے۔ جو کچھ نشر ہوتا تھا وہ یہ کہ انتخابات تو دراصل سن تہتر کے ائین کے مطابق اکتوبر اٹھہتر میں ہونے تھے مگر یہ بھٹو کی جمہوریت پسندی ہے کہ انھوں نےقبل از وقت انتخابات کا فیصلہ کیا وغیرہ، وغیرہ (حالانکہ یہ انتخابات کوئی سات برس بعد ہورہے تھے)۔

یہ الفاظ پڑھتے پڑھتے لگ بھگ مجھے زبانی یاد ہوچکے تھے کہ بھٹو جیسا زیرک، معتبر اور سیاسی قد و قامت کا کوئی رہنما پاکستان میں تو کیا پورے عالم اسلام میں نظر نہیں آتا۔

لیکن انتخابات کا اعلان ہوتے ہی کوئی نو مختلف پارٹیوں نے پاکستان نیشنل الائینس پی این اے کے نام سے انتخابی اتحاد قائم کرلیا، جس میں نواب زادہ نصراللہ خان کی جمہوری وطن، اصغر خان کی تحریک استقلال کے علاوہ تینوں مذہبی جماعتیں یعنی جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام اور شاہ احمد نورانی کی جمعیت علماءِ پاکستان اور کچھ چھوٹی چھوٹی جماعتیں شامل ہوگئیں۔ ویسے اتحاد میں اگر سچ پوچھیں تو ان تینوں مذہبی جماعتوں کے کارکن ہی زیادہ نمایاں نظر آتے تھے۔ اتحاد کا انتخابی نشان ’ہل‘ تھا۔ اسی ہل کی تصویر اور آواز، یعنی نعرے کی آوازیں ایڈیٹنگ کے لیے مسئلہ بنی ہوئی تھی۔

حزب اختلاف کا انتخابی جلوس ٹی وی سٹیشن کے سامنے سے اکثر یہ انتخابی نعرے لگاتا ہوا گزرا کرتا تھا ’سات مارچ دس مارچ۔ بھٹو کوئیک مارچ کوئیک مارچ‘

ایک دن میں نے دیکھا کہ ٹی وی کی عمارت سے قدرے دور تحریک استقلال کے جاوید ہاشمی میگا فون پر ریلی سے تقریر کر رہے تھے۔

جی ہاں میں بات کررہی ہوں موجودہ مسلم لیگ نواز کے سینئر رہنما جاوید ہاشمی کی۔ اپنی سیاسی زندگی کی ابتدا میں وہ ریٹائرڈ ائیر مارشل اصغر خان کی تحریک استقلال میں بھی شامل رہے۔ ملتان کے اس مڈل کلاس جواں سال سیاست داں سے خاصی امیدیں وابستہ کی جارہی تھی۔ گو کہ بعد میں جنرل ضیاالحق کی کابینہ میں شامل ہونے کے انکے فیصلے سے بہت ہی مایوسی ہوئی۔
ماہ پارہ

جاوید ہاشمی کو پنجاب یونیوسٹی لاہور سے فارغ اتحصیل ہوئے چند برس ہی گزرے ہونگے۔ خوش شکل ہونے کے ساتھ ساتھ شعلہ بیاں مقرر بھی تھے۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ مجھے تو وہ اس وقت احمد ندیم قاسمی کے اس شعر کی کچھ کچھ عملی تصویر لگے۔

فقط اس شوق میں پوچھی ہیں ہزاروں باتیں

میں تیرا حسن تیرے حسن بیاں تک دیکھوں

ویسے کہیں یہ نہ سمجھ لیجیے گا کہ قاسمی صاحب نے یہ شعر ان کے لیے لکھا تھا۔ خیر میں رک کر جاوید ہاشمی کی تقریر سننے لگی۔ مجھے ان کے الفاظ درست طور پر یاد نہیں مگر لب لباب یہ تھا کہ کہ ریڈیو اور ٹی وی پر صرف حکومت وقت کی تشہیر ہورہی ہے۔ یہ سراسر زیادتی ہے۔ اور یہ کہ حزب اختلاف کی انتخابی سرگرمیوں کو بھی کوریج دی جائے۔

معلوم نہیں کہ پی این اے کے رہنماوں کی آتشی تقریروں کا اثر تھا، اتحاد کا دباؤ تھا یا کچھ اور۔۔۔۔۔

ٹی وی پر پی این ایے کی انتخابی سرگرمیوں کی رپورٹنگ تو شروع ہوگئی۔ مگر نیوز کے عملے کو ان خصوصی ہدایات کے ساتھ کہ پاکستان قومی اتحاد ( پی این اے) کے انتخابی نعرے اور انتخابی نشان ' ہل' کو حتی الامکان سکرین پرنہ دکھایا جائے اور مختصر رپورٹ کے دوران اس کا ساؤنڈ یعنی لفظ ’ ہل‘ بھی کسی کو کم کم ہی سنائی پڑے۔

ایڈیٹنگ کے دوران فوٹیج میں جہاں کہیں ’ہل‘ نظر آتا تھا یا اس کا نعرہ سنائی دیتا تھا نیوز پروڈیوسر کی آواز بلند ہوتی تھی۔’ کٹو کٹو یار (کاٹو کاٹو یار ) یہ ہل نہ کٹا تو اپنی نوکری کٹ جائیگی‘ اور کبھی نعروں یعنی ’ہل ہمارا جیتے گا‘ وغیرہ پر رپورٹر کی آواز حاوی کردی جاتی تھی۔

ریڈیو پر لفظ ’ہل‘ کے بارے میں بوکھلاہٹ کا عالم یہ تھا کہ ایک اقتصادی رپورٹ میں جب تجـزیہ نگار نے تین مرتبہ کہا کہ اس مسئلے کا اس کے سوا کوئی ’حل‘ نہیں تو ریڈیو کے ایک جونیئر اہلکار نے کہہ دیا کہ یہ ٹاک قابل نشر نہیں۔ اس میں بار بار ’حل‘ کا ذکر ہے۔

ستتر کے انتخابات میں ایک روزنامے کی جانب سے دھاندلیوں کے مسلسل الزامات کے باوجود ویسی بےضابطگیاں نظر نہیں آئیں جیسی کہ جنرل ضیا الحق کے ریفرنڈم یا بعد کے انتخابات کے دوران باقاعدہ طور پر سرکاری سطح پر کی جاتی رہیں۔ دروغ بر گردن راوی جنرل ضیا کے ریفرنڈم میں تو سنا تھا فرشتوں نے ووٹ ڈالے تھے۔

ایسے ہی سلسلوں کے چلتے سات مارچ کا معرکۃ آرا دن آ پہنچا۔ اس دن ٹی وی پر خوب رونق تھی۔ سٹوڈیوز میں ایک بڑا سا خوبصورت سیٹ لگایا گیا تھا۔ چار کیمرے بیک وقت براہ راست الیکشن کی نشریات کی کوریج کر رہے تھے۔ موسیقی کے خصوصی پروگرام اور مزاحیہ خاکے خاص الیکشن کی مناسبت سے تیار ہوئے تھے، نشریات کا دورانیہ بڑھا دیا گیا تھا، خاصا جشن کا سا سماں تھا۔ تاہم اگلے ہی دن یہ رونق ماند پڑھ گئی۔

اس دن دھاندلیوں کے الزامات عائد کرتے ہوئے حزب اختلاف نے نہ صرف نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا بلکہ صوبائی اسمبلیوں کی ووٹنگ کا بھی بائیکاٹ کر دیا گیا۔ اس کے باوجود کم از کم ٹی وی اور ریڈیو کی حد تک تو انتخابات بخیر و خوبی انجام پائے۔ مگر حقیقت یہ تھی کہ نہ جیتنے والی پارٹی کو اپنی فتح کایقین تھا اور نہ ہارنے والوں کو اپنی شکست کا۔

ایک قومی روزنامہ شدت سے دھاندلی کے الزاما ت عائد کرتا رہا۔ مگر انفرادی یا مقامی سطح پر واقعات کے سوا ایسی کسی منظم دھاندلی کے شواہد پیش نہیں کیے گئے جیسے بعد میں جنرل ضیا الحق کے ریفرنڈم یا بعد کے انتخابات میں باقاعدہ طور پر سرکاری سطح پر کی جاتی رہی۔

جنرل ضیا الحق کے ریفرنڈم میں تو دروغ بر گردن راوی سنا تھا کہ فرشتوں نے بھی ووٹ ڈالے۔


------

No comments: