RT News

Monday, May 04, 2009

Markaz Sees Delay of $80b UAE Projects

Issac John

4 May 2009

DUBAI - The outlook for the UAE real estate market remains negative amid prospects of a delay in the construction of $80 billion worth of projects that were scheduled for completion in coming months, a respected Kuwait-based investment bank said.

Kuwait Financial Centre, also known as Markaz, said in a report that oversupply in the property market would likely constrain demand and impede economic growth. Markaz said it expected the UAE’s real gross domestic product, or GDP, to grow this year by 0.7 per cent, down from 5.8 per cent in 2008.

“The persistent uncertainties in demand expectations, especially in Dubai, would continue to haunt the real estate sector,” Markaz said in its outlook for the second quarter of 2009.

“Financing too remains restrictive with banks hesitating to lend to developers, and we expect it to remain so. Though some banks have offered renewed mortgage lending, the extent of takers for such loans is questionable given the huge uncertainty in demand prospects, especially in Dubai,” Markaz said in the report issued on Friday.

The outlook for the GCC real estate sector also remains negative, due to weak demand and abundant supply, said Markaz, one of the Arab Gulf region’s leading asset management and investment banking institutions.

The reluctance of banks to lend to the real estate and construction sector due to the lack of confidence in the industry has removed the necessary lubricants and pushed the region into deeper negative growth.

“Vibrant economic growth and liquidity conditions in the past have resulted in an oversupply situation with the significant correction in demand expectations of late albeit with pockets of undersupply,” it said.

According to a report that Markaz issued in March, the UAE accounted for 91 per cent of all real estate and construction projects that had been either put on hold or cancelled in GCC countries. “A significant contraction in activity due to cancellation or delaying of the projects should be painful for the sector, and the pain would as well be felt in the overall economy depending on the extent of the sector’s contribution to the economy,” that earlier report said.

Jones Lang LaSalle, a real estate service company, said in March that over half the residential and commercial projects due for completion in Dubai between 2009 and 2012 have been put on hold or cancelled. Morgan Stanley said in February that some $263 billion worth of projects in the country had been delayed or cancelled since September.

In its latest report, Markaz said that 2009 would present an opportunity for significant changes and growth in the Sukuk market. The boom of recent years triggered higher interest rates as GCC countries tried to contain inflation. Now that the boom has ended, rates are falling as GCC economies seek to encourage spending and spur economic growth, it said.

For equities, Markaz had a neutral view. Accumulated oil revenues might provide a cushion for sovereign entities in the GCC through 2009, but subdued oil prices and a protracted economic downturn would probably lead to a jump in sovereign Sukuk issuances, as Gulf nations try to complete large-scale infrastructure projects or plug budget deficits, the report said.

---


’دبئی چلو‘

آصف فاروقی

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، دبئی

’دبئی چلو‘ سیریز کا تعارف

دبئی کی معیشت کا انحصار تعمیراتی اور ریئل اسٹیٹ سیکٹر پر ہے

دنیا کی بیشتر ترقی یافتہ معیشتوں کو ناکوں چنے چبوانے کے بعد عالمی معاشی بحران اب متحدہ عرب امارات پہنچا ہے اور یہاں پر سب سے تیزی سے ترقی کرتی ہوئی دبئی کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

عرب ریاست ہونے کے باوجود دبئی کی معیشت کا انحصار تعمیراتی اور ریئل اسٹیٹ سیکٹر پر ہے جو ملکی معیشت کا پچاسی فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ دبئی کی بیس لاکھ آبادی میں چھ لاکھ مقامی ہیں۔ باقی وہ افراد ہیں یا ان کی دوسری اور تیسری نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو گزشتہ چالیس برس سے بہتر معاشی مستقبل کی تلاش میں ’دبئی چلو‘ کے دلفریب خواب اور نعرے کی تقلید میں یہاں آتے رہے۔

دبئی غیر ملکیوں کو، سوائے چند ایک کے، رہائشی حقوق دینے کا پابند نہیں ہے۔ لہٰذا جب معاشی بحران کے باعث یہاں ملازمتیں ختم ہونا شروع ہوئیں تو اس شہر کی ترقی میں اپنی زندگی لگانے والوں کو یہ ملک چھوڑنے کے لیے تیس دن ملے۔

’دبئی چلو‘ انہی مزدوروں اور کارکنوں کی کہانی ہے جس میں ان کا بھی ذکر ہوگا جنہوں نے دبئی کی جائیداد میں سرمایہ کاری کی اور راتوں رات کروڑ پتیوں کی فہرست میں شامل ہوئے۔ وہ اس بحران کے بعد کس حال میں ہیں۔

آٹھ قسطوں کی اس سیریز میں ان مزدوروں کا بھی ذکر ہوگا جو دبئی کے بعض مزدور کیمپوں میں غیر انسانی حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان صفحات کے ذریعے ہم آپ کو اس دبئی کی بھی سیر کرائیں گے جو یہاں آنے والے عام سیاح اور کاروباری کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے اور دبئی کا میڈیا سخت قوانین کے باعث چکتے دمکتے شہر کے اس تاریک گوشے سے پردہ اٹھانے سے معذور ہے۔
تعمیراتی اور ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں بحران

چند ماہ پہلے یہ تمام کرینیں کام کر رہی تھیں لیکن اب ان میں سے بیشتر محض ہوا میں معلق ہیں

ابو ظہبی سے پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان کرکٹ میچ دیکھنے کے بعد کرائے کی گاڑی میں دبئی کی جانب سفر کرتے ہوئے ڈرائیور ناصر نے سڑک کنارے ایک ڈھابے پر چائے پیتے ہوئے اپنی کہانی سنائی۔

پاکستان کے ضلع گجرات کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے ایک مزدور کی حیثیت سے دبئی اور چند برسوں میں اپنی کنسٹرکشن کمپنی تک کا سفر اور پھر کچھ ہی ماہ میں دیوالیہ کا شکار ہونا اور دیوالیہ بھی ایسا کہ وہ شخص جو کئی سال دبئی میں دنیا کی مہنگی ترین گاڑیوں کا مالک رہا، اب محض ایک ڈرائیور ہے اور وہ بھی دیہاڑی دار۔

ناصر کی کہانی نئے دبئی کی کہانی ہے۔ ’میں یہاں آیا تو ایک مزدور کی حیثیت سے تھا لیکن کچھ تعلیم تھی لہٰذا چیزیں جلد سمجھ میں آنے لگیں۔ کچھ عرصے بعد مزدوروں کا سپروائزر بن گیا، پھر ٹھیکیدار اور چند برس میں اپنی کمپنی رجسٹر کروا لی۔ یہ چھ برس پہلے کی بات ہے۔ بہت کنسٹرکشن ہو رہی تھی۔ ماں کی دعاؤں سے مجھے بھی بہت کام ملا۔ ابھی چھ ماہ سے جو بحران شروع ہوا تو اس کی لپیٹ میں میں بھی آگیا۔ جن پراجیکٹس نے میرے پیسے دینے تھے وہ بند ہو گئے۔ چیک رک گئے، میں نے بینکوں کے جو پیسے دینے تھے وہ اپنے اثاثے بیچ کر پورے کیے، لیبر کو ادائیگیاں کیں اور انہیں یہاں سے روانہ کیا۔ اب میرے پاس کچھ نہیں سوائے اس کار کے جسے کرائے پر چلاتا ہوں اور اپنا خرچ نکالتا ہوں‘۔

یہ ایک محمد ناصر کی نہیں ان ہزاروں افراد کی کہانی ہے جو روزگار کی تلاش میں اپنا وطن چھوڑ کر اس دیار میں آئے اور اپنی بساط کے مطابق خوب کمایا۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب یہاں گنوانے کا موسم ہے۔ متحدہ عرب ریاستوں میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست دبئی گزشتہ چند ماہ سے سنگین معاشی بحران کا شکار ہے اور بحران کی واحد بڑی وجہ تعمیراتی شعبے میں آنے والا زوال ہے۔ عرب ریاست ہونے کے باوجود بیس لاکھ آبادی کی اس مملکت کی معیشت کا انحصار تعمیرات، سیاحت اور تجارت پر ہے جبکہ تیل ملکی معیشت کا صرف چھ فیصد ہے۔ لہذا تعمیرات اور ریئل اسٹیٹ سکیٹر میں آنے والے اس بحران نے معیشت کے دیگر تمام شعبوں کو بری طرح سے متاثر کیا۔

تعمیراتی شعبے سے شروع ہونے والے اس بحران نے معیشت کو کس حد تک متاثر کیا ہے، دبئی میں اطلاعات تک رسائی کا شفاف نظام نہ ہونے کے باعث ، اس بارے میں سرکاری اور حمتی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ لیکن بعض ماہرین کا خیال ہے کہ دبئی کے انٹرنیشل سٹی کی طرح گزشتہ برس ستمبر کے بعد سے دبئی کے تقریباً تمام بڑے تعمیراتی منصوبوں پر کام روک دیا گیا ہے۔ زیر التوا ان منصوبوں کی تعداد ایک ہزار سے زائد بتائی جاتی ہے۔ ان منصوبوں کے تاخیر کا شکار ہونے سے تین سو ارب ڈالر کا سرمایہ جو ان منصوبوں پر سرف ہونا تھا، رک گیا ہے۔ یہ سرمایہ جب پائپ لائن میں نہ آیا تو بینک مشکلات کا شکار ہو گئے اور یوں ایک چین ری ایکشن شروع ہوا جس نے دبئی کی معیشت کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔

دبئی میں اب بھی بہت پوٹینشل ہے۔ یہاں دنیا کا بہترین انفراسٹرکچر موجود ہے۔ کاروباری لوگوں کو جو سہولتیں یہاں ملتی ہیں، دنیا میں کہیں نہیں ملتیں۔ لہٰذا یہ ممکن نہیں کہ یہ بحران ہمیشہ یوں ہی رہے اور جو ہزاروں عمارتیں آدھی کھڑی ہیں وہ ایسے ہی ادھوری رہیں۔ یہ مشینری چلے گی اور یہ عمارتیں ضرور بنیں گی، آج نہیں تو کل۔

محمد ناصر

یہ سب شروع کیسے ہوا، یہ جاننے کے لیے میں دبئی کے مؤقر اخباری گروپ گلف نیوز کے تعمیرات اور جائیداد کی خبروں کے لیے مختص ہفتہ وار رسالے پراپرٹی ویکلی کے ایڈیٹر منوج نائیر سے ملنے پہنچا۔

منوج نائیر نے کہا ’دبئی یہ سمجھتا رہا کہ یہ بس ترقی ہی کرے گا اور باقی دنیا میں گزشتہ برس آنے والا بحران اسے متاثر نہیں کرے گا۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ جب غیر ملکی سرمایہ کاروں نے دبئی میں سرمایہ لگانے سے انکار کیا تو جائیداد کی قیمتیں گرنا شروع ہو گئیں۔ بلڈرز کو سرمایہ نہیں ملا اور انہوں نے بھی اپنے تعمیراتی پراجیکٹس بند کرنا شروع دیے‘۔

اور جب دبئی میں راتوں رات اونچی اونچی عمارتیں تعمیر کرنے کے لیے دنیا بھر میں مشہور ٹھیکیدار کا اعتماد مجروح ہوا اور اسے خریداروں کی کمی کا خدشہ پیدا ہوا تو پھر پورے دبئی میں اس انٹرنیشنل سٹی کی طرح خاموشی چھا گئی۔

کہا جاتا ہے کہ اونچی اونچی عمارتیں تعمیر کرنے کے لیے جو دیو ہیکل کرینیں استعمال کی جاتی ہیں ان کی دنیا بھر میں کل تعداد کا نصف دبئی کے پچاس کلومیٹر رقبے میں موجود ہیں۔ چند ماہ پہلے یہ تمام کرینیں کام کر رہی تھیں لیکن اب ان میں سے بیشتر محض ہوا میں معلق ہیں۔

یہی حال دبئی کے مضافات میں اربوں ڈالر کی لاگت سے زیرتعمیر دبئی کے انٹرنیشنل سٹی کا ہے جہاں تعمیری کام رک چکا ہے۔ اسے تعمیر کرنے والی الساحل دبئی کی بڑی تعمیراتی کمپنی ہے جو شاہی خاندان کی ملکیت ہے۔ شاہد لطیف انٹرنیشنل سٹی کے سائیٹ انجینئر ہیں۔ یا یوں کہیے کہ تھے۔ ان سے میری ملاقات ان کے ہاسٹل میں ہوئی جہاں وہ پاکستان واپسی کے لیے اپنا سامان باندھ رہے تھے کیونکہ ان کی کمپنی کے بیشتر ملازمین کی طرح سائیٹ انجینئر کو بھی برطرف کر دیا گیا ہے۔

وئیر ہاؤس میں کھڑی گاڑیاں

’ہماری کمپنی کے تین بڑے کلائنٹس تھے جنکے دبئی میں بڑے بڑے پراجیکٹس تھے۔ ان سب پر کام بند ہو چکا ہے۔ ہماری کمپنی کے پانچ ہزار میں سے بیشتر ملازمین فارغ کر دیے گئے ہیں باقی انتظار میں ہیں کہ ان کی باری کب آتی ہے‘۔

سرمائے کی کمی نے جائیداد کی قیمت کو متاثر کیا جس میں ایک محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ برس ستمبر سے اب تک چالیس فیصد تک کی کمی ہو چکی ہے اور قیمتوں میں گراوٹ کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جہاں پہنچ کر ان لاکھوں غیر ملکیوں کا ذکر لازمی ہو جاتا ہے، جو دبئی کے رئیل اسٹیٹ سیکٹر بحران سے متاثر ہوئے۔ یہ کون لوگ ہیں اور ان پر کیا بیتی، اس کی تفصیل بتائی دبئی کے ایک بینک میں اسی طرح کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کے شعبے کے انچارج علی حسن نے۔

’دبئی کے تعمیراتی اور ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں روس، پاکستان اور انڈیا سے بہت پیسہ آیا۔ لوگ راتوں رات امیر بننے کے چکر میں جب بھی کوئی پراجیکٹ شروع ہوتا اس میں سرمایہ کاری کرتے، بینک سے قرض لیتے اور دو تین ماہ میں جب اس کی قیمت میں اضافہ ہوتا تو اسے بیچ دیتے۔ بہت سے لوگوں کا دبئی میں کاروبار ہی یہی بن گیا۔ لیکن جب اچانک بحران پیدا ہوا تو وہ لوگ جنہوں نے آٹھ آٹھ دس دس جائیدادیں خرید رکھی تھیں وہ بکنا بند ہو گئیں۔ بینکوں کو تو اپنی قسط چاہیے تھی لیکن ان کے پاس دینے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ یوں لوگ یا یہ جائیداد چھوڑ کر فرار ہوگئے اور یا اب جیلوں میں پڑے ہیں‘۔

اور جب بڑے بڑے تعمیراتی منصوبوں کے ذمہ داروں کا دیوالیہ نکلا تو وہ پہنچے نو بہار علی ریحان اور ان کے ہم پیشہ، وکلا کے پاس۔ میں نے بھی نو بہار ایڈووکیٹ کو تلاش کر لیا جو ہیں تو کارپوریٹ وکیل لیکن آج کل صرف زمین جائیداد کے مقدمے لڑ رہے ہیں۔ کیوں، یہی سوال میں نے بھی ان سے پوچھا۔

’ہمارا زیادہ کام یہاں روز روز بننے والی سرمایہ کار کمپنیوں کی رجسٹریشن وغیرہ سے چلتا تھا۔ اب وہ کام تو بند ہو گیا ہے۔ اس کی جگہ زمین جائیداد کے مقدمے ہیں۔ کسی کی ضمانت کروانی ہے کسی کی بینک کے ساتھ ڈیل۔ بس روز روز یہی کام ہوتا ہے آجکل‘۔

دبئی کی جائیداد میں سرمایہ لگانے والے ایسے لوگوں کی کتنی تعداد ہے جو جیلوں میں ہیں یا بینکوں کے ڈر سے دبئی سے فرار ہو گئے، یہ جاننا سرکاری سطح پر ممکن نہیں ہے کیونکہ دبئی کی حکومت سرے سے اس مسئلے کے وجود ہی سے انکاری ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ بینکوں کے واجبات ادا کیے بغیر دبئی چھوڑنے والے لوگ یہاں کے ائیرپورٹ پر اپنی گاڑیاں بھی چھوڑ کر فرار ہو رہے ہیں کیونکہ یہ گاڑیاں بھی عموماً قسطوں پر لی گئی تھیں۔

دبئی کے ہوائی اڈے پر تو نہیں، البتہ بڑی تعداد میں ایسی گاڑیاں مجھے ایک بینک کے وئیر ہاؤس میں کھڑی ملیں۔ دبئی شہر کے بیچوں بیچ بنے اس وئیر ہاؤس کے منیجر نے کچھ بتانے سے انکار کیا، لہذا میں نے اندراج رجسٹر سنبھالے بیٹھے ایک اور ملازم سے بات کی جسکا کہنا تھا کہ ’پہلے یہاں مہینے میں دس بیس گاڑیاں آتی تھیں وہ بھی پرانی سی جو لوگ ویسے ہی چھوڑ دیتے تھے۔ اب تو یہ وئیر ہاؤس بھر گیا ہے اور اس میں گاڑی کھڑی کرنے کی بھی جگہ نہیں ہے۔ لگتا ہے لوگوں نے گاڑیوں کی قسطیں دینا بند کر دی ہیں‘۔

اس رجسٹر میں درج تفصیلات سے معلوم ہوا کہ یہاں ہر ماہ چند گاڑیاں لائی جاتی تھیں لیکن گزشتہ اکتوبر کے بعد سے ان کی تعداد تین سے چار سو ماہانہ تک پہنچ چکی ہے۔ اور ان میں سے بیشتر ائیرپورٹ کی حدود ہی سے قبضے میں لی گئی ہیں۔

دبئی کی بلند و بالا عمارتیں

ایسا نہیں ہے کہ دبئی کی جائیدار میں سرمایہ لگانے والے سب ہی فرار ہوئے یا زیر عتاب آئے۔ دبئی کے خوبصورت ساحل پر بنے ایک محل نما گھر میں رہنے والے ماجد وزیر شیخ نے گزشتہ برسوں کے دوران دبئی ریئل اسٹیٹ سے خوب کمایا۔ اس بحران میں ان کے بھی اربوں نہیں تو کروڑوں ڈوبے لیکن وہ نہ فرار ہوئے، نہ دلبرداشتہ۔ اسکی وجہ وہ یوں بتاتے ہیں۔

’جس نے دبئی میں سوچ سمجھ کر سرمایہ لگایا اس نے فرض کریں پانچ سالوں میں ایک لاکھ کے دس لاکھ بنائے۔ گزشتہ ایک برس میں اس دس میں سے پانچ لاکھ کا نقصان ہو گیا۔ لیکن اب بھی اسے چار لاکھ کا فائدہ ہے‘۔

تاہم ماجد وزیر کا کہنا تھا کہ ’دیوالیہ ان لوگوں کا نکلا جنہوں نے لالچ میں آکر اپنی حیثیت سے بڑھ کر پانچ دس جائیدادیں بینکوں سے قرض لیکر خریدیں۔ اب وہ نہ بکتی ہیں اور نہ ہی ان کے پاس قسطیں دینے کے پیسے ہیں‘۔

دبئی کے اس معاشی بحران میں ہزاروں لٹے اور فرار ہوئے۔ لیکن گجرات کا محمد ناصر دبئی میں رہتے ہوئے ان حالات سے لڑ رہا ہے۔ ناصر کا کہنا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب یہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اس کی کنسٹرکشن کمپنی بحال ہوگی اور وہ ایک بار پھر ڈرائیور سے اس کار کا مالک بنے گا۔

’دبئی میں اب بھی بہت پوٹینشل ہے۔ یہاں دنیا کا بہترین انفراسٹرکچر موجود ہے۔ کاروباری لوگوں کو جو سہولتیں یہاں ملتی ہیں، دنیا میں کہیں نہیں ملتیں۔ لہٰذا یہ ممکن نہیں کہ یہ بحران ہمیشہ یوں ہی رہے اور جو ہزاروں عمارتیں آدھی کھڑی ہیں وہ ایسے ہی ادھوری رہیں۔ یہ مشینری چلے گی اور یہ عمارتیں ضرور بنیں گی، آج نہیں تو کل‘۔

گزشتہ کئی دہائیوں سے ’دبئی چلو‘ کے دلفریب نعرے اور خواب کی تعمیل کے لیے دنیا بھر بلخصوص پاکستان، انڈیا اور جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے لوگ یہاں آتے رہے اور دبئی کے تعمیراتی جنگل میں گم ہوتے رہے۔ اس معاشی بحران نے ان کے خوابوں کو کیسے چکنا چور کیا۔ اسکی تفصیل ’دبئی چلو‘ کی اگلی قسط میں۔

No comments: