RT News

Wednesday, February 20, 2013

Karbala-e-Quetta

کربلائے کوئٹہ‎ کربلائے کوئٹہ‎ جس کسی نے کوئٹہ کی چھاؤنی دیکھی ہے اس نے چھاؤنی کے تمام داخلی راستوں پر قلعہ نما مورچوں کو بھی دیکھا ہوگا، ان مورچوں سے ارد گرد کا تمام علاقہ بڑی آسانی سے نظر آتا ہے. ایسے ایسے حفاظتی انتظامات ہیں کہ کوئٹہ کا ہر شہری یہ کہتا پھرتا ہے کہ چھاؤنی میں وردی والوں کی مرضی کے بغیر پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا، لیکن اسی چھاؤنی کے مرکز میں واقع اے.ٹی.ایف جیل سے لشکر جھنگوی کے رہنما عثمان سیف اللہ کرد اور داؤد بادینی دن کے اجالے میں بغیر کوئی تالہ توڑے وردی والوں کی گاڑی میں بیٹھ کر فرار ہو جاتے ہیں. سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ پچھلی ہی رات جیل کے تمام شیعہ ہزارہ اہلکاروں کو چھٹی پر بھیج دیا جاتا ہے، اس کے باوجود اگر میں کہتا ہوں کہ یہ جو دہشتگردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے تو آپ حیران کیوں ہو جاتے ہیں؟؟؟ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ جو ٹولہ خود نہ علمدار روڈ دھرنے میں شریک ہوا اور نہ ہی ہزارہ ٹاؤن دھرنے کو لائقِ شمولیت جانا بلکہ پوری پاکستانی قوم سے اتحاد کرنے کے بجائے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنائی آج وہی ٹولہ سب سے پہلے دھرنا ختم کرنے کی مخالفت کر رہا ہے؟؟؟ کیوں بھئی، آپ کو اس دھرنے سے کیا؟ آپ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کی فکر کریں، کہیں اس کی کچی دیواریں اس تیز بارش میں بہہ نہ جائیں۔ لیکن شاید زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ کچھ نادان دوست بھی اس ٹولے کی سازش کو سمجھ نہیں پائے اور جذباتی ہو کر اسی طاقت کو برا بھلا کہہ رہے ہیں جس نے ہماری حمایت میں چار دن تک پورے پاکستان کو جام کر رکھا یعنی پاکستان کی ملت تشیع اور ان کے معزز علماء۔ کیا یہ رسمِ شرافت ہے؟؟؟ اور ہاں، کیا یہ ٹولہ سمجھتا ہے کہ وہ شہداء کے ورثا سے زیادہ شہداء کا ہمدرد ہے؟ جب شہداء کے لواحقین نے بذاتِ خود تمام تر اختیارات علماء اور کوئٹہ یکجہتی کونسل کو دے کر دھرنا ختم کرنے اور شہداء کی تدفین پر راضی ہوگئے ہیں تو اس ٹولے کو حقِ اعتراض کس نے دے دیا؟؟؟ S K [Official] جنرل کیانی آپ کو نیند آجائے گی آج رات؟؟ کوئٹہ میں آنے سے منع کردیا آپ نے!!!! کیوں؟ کیونکہ بلوچ باغیوں کے خلاف جن لوگوں کو آپ کے اداروں نے تیار کیا اُن کو ختم کرنا پڑے گا، اگر نہیں کیا تو آپ کا ادارہ متنازعہ ہوجائے گا، کچھ سوشیعہ قتل ہوتے ہیں تو ہوجائے مگر "S-Wing" پر آنچ آجائے ایسا کیسے ممکن ہے!! سمجھ آرہا ہے تھوڑا، تھوڑ کوئٹہ : سانحہ کرانی روڈ کے بدترین واقعے میں 250 سے زائد زخمیوں میں سے 40 زخمی جن کی حالت نہایت خراب ہے جنکو آج رات طیارہ C130 کے ذریعے کراچی منتقل کیا جائے گا ڈان نیوز میں شائع ہونے والے خبر میں کہی انکشافات ہوئے ہیں جن میں یہ بهی شامل ہے کہ فوج کوئٹہ شہر میں آنے کے لئے تیار تهی، جبکہ حکومت نے فوج کو نہیں بلایا، اسلام آباد سے آئے وفد کے آگے عمائدین نے 23 مطالبات پیش کئے جن میں ایک کو چوڑ کر تمام مطالبات منظور کرلئے گئے، وہ ایک مطالبہ جو پورا نہیں ہوا یہی فوج بلانے کا تها، اور اس مطالبہ کو کمزور کرنے والے بهی کوئ اور نہیں بلکہ HDP کے سربراہ اور سردار سعادت تهے جنہوں نے فوج لانے کی مخالفت کی جب MWM کے سربراہ آمین شہیدی سے اس بارے میں پوچها گیا تو انہوں نے کہاں کہ ہمارے پاس کوئ اور اپشن نہیں بچا جب ہزارہ قوم کے اسٹیک ہولڈرز نے یہ فیصلہ کردیا۔ For More Open The Link. http://dawn.com/2013/02/20/govt-vetoed-hazaras-demand-army-was-ready-for-quetta-deployment ======== Shiitenews ایسے وقت میں جب ملت جعفریہ 40 دن پہلے 87 جنازے اُٹھانے کے بعد اپنے پیاروں کے مزید 113 جنازے دفنانے کیلئے جا رہے تھے تو ملت جعفریہ کہ اتحاد اور وحدت سے خوف خاکر سازشی عناصر نے ایک بار پھر ملت جعفریہ کے زخموں پر نمک چھرکنا شروع کردیا۔ یہ نمک پاشی کافی ہے اُن لوگوں کو خواب غفلت سے جگانے کیلئے جو دوست اور دشمن میں فرق نہیں سمھجتے۔۔ ========= کوئٹہ اپڈیٹ: سانحہ کرانی روڈ کے بدترین واقعے میں 250 سے زائد زخمیوں میں سے 35-40 زخمی جن کی حالت نہایت خراب ہے ، کو آج رات طیارہ C130 کے ذریعے کراچی منتقل کیا جائے گا۔ ان زخمیوں میں زیادہ تر لڑکیاں اور عورتیں شامل ہے۔ کوئی ہے جو ان وحشی درندوں کو بتلائے کہ جب رسول الله (ص) اسلام لے کر آئے تو سب سے پہلے عورت کو مقام و منزلت دی تاکہ جہالت کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ یہ کونسے اسلام کے پیرو ہے کہ جس میں عورت کو بھی بخشا نہیں جاتا؟ بے شک یہ مسلمان نہیں ۔ اسلام کو بدنام کرنے والے غدار ہیں ۔ ============ S K [Official] دھرنے کے بعد فوج کیوں نہیں آئی؟؟ سب یہی پوچھ رہے ہیں! بات یہ ہے کہ تمام ملکوں کی ایک فوج ہوتی ہے لیکن یہاں اُلٹا ہے یہ ملک ہماری فوج کا ہے، اگر فوج آنا چاہے تو حکومت بھی نہیں روک سکتی کیونکہ یہاں پس پشت میں صرف فوج کی ہی چلتی ہے۔ فوج نے خود کوئٹہ میں آنے سے انکار کردیا!! وہ کیوں؟ اب سُنیں اس دھرنے سے ایک گروہ جس کا نام "فوج" ہے بے نقاب ہوگیا! ہماری فوجی اسٹبلشمنٹ خود لشکر جھنگوی کے دہشتگردوں کو پال رہی ہیں کیونکہ بلوچستان میں بلوچ باغی پاکستان سے علیحدگی کی موومنٹ چلا رہے ہیں تو یہ دہشتگرد اُن کے خلاف استعمال ہورہے ہیں اُسی طرح جس طرح پارہ چنار کے گرد نواح میں طالبان کو سرحدوں کی حفاظت کے لیے استعمال کیا گیا تھا اور قتل ہمارے مومنین ہوئے تھے، کیونکہ اگر آپ کسی کو پالے گے تو وہ بھی تو کچھ اپنا کام لے گا!! ننے بچے بننا اب چھوڑ دیں!باتوں کو سمجھنا شروع ہوجائے! وقت سب کے پاس کم ہے =========== کربلائے کوئٹہ‎ جنگِ صفین کو یاد کرو, جب قرآن کے خلاف لڑنے والوں نے مکاری سے کام لیتے ہوئے سپاہِ کوفہ کو امام علی (ع) کے خلاف گمراہ کرنے کے لئے قرآن نیزوں پر اٹھا لئے۔ اس وقت بھی مالکِ اشتر لوگوں کو سمجھاتے سمجھاتے تھک گئے لیکن سادہ لوح لوگ جذبات میں آ کر دشمن کی سازش کا نشانہ بن گئے۔ اور پھر بعد میں اپنی بیوقوفی ثابت ہونے پر سب کے سب نادم ہوئے اور اپنے گلوں میں جوتے لٹکا لئے۔ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے، کچھ کہنے سننے سے پہلے یہ سوچ لیں کہیں ایسا نہ ہو کچھ دنوں بعد آپ بھی اپنے کسی فعل پر پشیمان ہو جائیں۔ ===== کربلائے کوئٹہ‎ شہدائے انقلاب ہزارہ ٹاؤن کی تدفین پرامن طور پر جاری ہے۔ میڈیا بے بنیاد پروپگینڈا کر رہا ہے، ہماری مائیں اور بہنیں باغیرت اور منظم ہیں انہوں نے خوش اسلوبی سے اپنے علماء اور رہنماؤں کا فیصلہ مان لیا ہے۔ تدفین سے انکار کی تمام باتیں منافقین کی پھیلائی ہوئی ہیں اور میڈیا لوگوں کے جذبات سے فائدہ اٹھا کر اس مسئلے کو اچھال رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر بغیر تصدیق کے افواہیں پھیلانے والے میڈیا کی اس شرارت کا حصہ بن رہے ہیں، انہیں اصل حقیقت کا قطعی علم نہیں ہے۔ اصل حالات جاننے کے لئے ہزارہ ٹاؤن میں موجود نوجوانوں سے رابطہ کریں۔ ============== شیعہ کلنگ پر اگر آپ اعتماد کرتے ہیں تو خدارا ایک بات پر آمادہ ہوجائے، "کم ازکم بھی 6دن کے لیے آپس میں مکمل طور پر اتحاد کرلے" اُس کے بعد جو بھی کرنا ہو کریں،!! ہمیں تقسیم کیا جارہا ہے میڈیا میں ہمارے کردار کو متنازع بنایا جارہا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ، ہماری ریاستی ایجنسیاں نہیں چاہتی کہ ہم منہ کھولے! آپ خود سوچے 800 کلو گرام دھماکہ خیز مواد لاہور سے کوئٹہ آگیا اور راستے میں کسی چوکی نے پوچھا تک نہیں؟ اتنی بڑی خفیہ ایجنسی ISI کیا چنے بیچ رہی تھی؟ بات کو سمجھے فوج نے خود کوئٹہ میں آنے سے منع کردیا اب تو حکومت نے بھی اپنا کام کرلیا لیکن ہماری فوج کو ہماری فکر ہی نہیں!! اور فوج کیوں نہیں آنا چاہتی یہ آپ کو پہلے سے پتہ ہے! جذباتی ہونے سے کچھ نہیں ہوگا! اس وقت اتحاد سب سے بڑا ہتھیار ہے ================ کربلائے کوئٹہ‎ شیعیان کوئٹہ جیکب آباد میں ہونے والے دھماکے اور اس میں اہلسنت سے تعلق رکھنے والے گدی نشین پیر سید بخاری کے پوتے کی شہادت پر بھرپور احتجاج کرتے ہیں. اگر ہمارے اہلسنت دوست طالبان/سپاہ صحابہ کے خلاف احتجاج یا دھرنے کی کال دیں تو ہم ان کا بھر پور ساتھ دیں گے. شیعہ سنی ساتھ ہیں، تکفیری خالی ہاتھ ہیں...... =============== Alamdar Road علمدار روڈ‎ Assallam.o.Alaikum, With Due Respect, Hum Alamdar Road علمدار روڈ Page K Admins Aap Sab K is Naqabil e Bardasht Messages se Bohot Mayus Huwai Hai..! Hum Din Raat Aap Logo Ki Agahi K Liye Apni Jaan ki Parwah Nakarthe Huwai Quetta Or Dunia Bhar se Khaber/News Updates Jama Karte Pirthe Hai. Or Badle Mai Kisi Chez Ki Oumeed Tho Nahi Karte Par is chez Ka Gilla Zaror Karsakte Hai Aap se Ki Aap Logo Ko Pal Pal Bakhaber Rakne Ka Sila Hamai Galliyon Or Badwahiyou Mai Nahi Milna Chahiye..! Hum Jo Kuch Bhi Aap Tak Pohanchate Hai, Oun Mai Hamara Zaathi Mufaad Ya Hamari Taraf se Kuch Nahi Hota. Jo Kuch Quetta Or Gird o Nawah Mai Hota Hai, Hum Aap Tak Sirf Wahi Khaber Pohanchate hai..! Agar Aap Log Humare Kam se itne he Nakhosh Hai Tho Hum Aaj K Baad Aap Tak Koi Khaber Nahi Pohanchayengai. W,salam. -Alamdar Road Admin. ============= نام نہاد آئی ایس آئی کا آصل چہرہ سامنے آخر آ ہی گیا! آج سب واضح ہو گیا کہ ہمارے قتل عام میں کون ملوث ہیں،کون ہے جو ہمیں قتل کر کے باآسانی فرار ہو جاتا ہے،کس کی آڑ میں وہ 100 معصوم لوگوں کے قاتل اچھلتے ہیں،کون انکی پشت پناہی کرتا ہے۔ہمیں تو آج پتہ چلا لیکن یہ کہانی تو بہت پہلے سے چل رہی ہیں۔ ہم سوچتے تھے کہ ہماری اووو معذرت ہماری نہیں دہشتگرد آرمی کو ہمارے ٹیکسز سے چلاتے ہیں لیکن یہ ہماری غلط فہمی تھی یہ دہشتگرد،بدمعاش آرمی تو سعودی ایڈ پر چلتی ہیں اور انہی پیسوں سے اپنی عیاشیاں کو سامان کرتے ہیں اور روزانہ معصوم شیعوں کے خون سے نہاتے ہیں۔ ============ Shiitenews shared Shiite News Media Watch's video: ‎تدفین کا عمل روکنے والوں کا خانوادہ شہداء سے کوئی تعلق نہیں تھا‎. ==== تدفین کا عمل روکنے والوں کا خانوادہ شہداء سے کوئی تعلق نہیں تھا یہ سازش ایک لسانی تنظیم کے کہنے میں آکر کچھ ضمیر فروش لوگوں نے علماء اور ملت کے درمیان انتشار پھیلانے کی ناکام کو شش کی تھی۔ خانوادہ شہداء کے ذمہ داران کی میڈیا سے گفتگو ================= Quetta bombing: Burial ceremonies complete amidst protests By Web Desk Published: February 20, 2013 Pakistani Shia Muslims carry the coffins of relatives during a mass burial ceremony in Quetta on February 20, 2013. PHOTO: AFP QUETTA: Burial ceremonies of the Quetta bombing victims was completed on Wednesday amidst aerial firing and ongoing protests that continued at the Hazara town graveyard throughout the day. Earlier in the day, miscreants hurled stones on passing cars which broke the windshield of a vehicle belonging to the Deputy Commissioner of Quetta and injured one of the Levis security staff. Additional Frontier Corps (FC) personnel and police were called in. The protesters also blocked the Western Bypass and opened aerial firing in order to block the burials. Meanwhile Abdul Qayyum Changezi, a leader of the Quetta United Council (QUC) said that those creating trouble for the burials were “irrelevant” people and were not related to the victims of the bombing. Members of Majlis-e-Wahdat-e-Muslimeen (MWM) were not permitted to go inside Imam Bargah Bin Jaffer due to a targeted operation going on in the area. In protest a few youngsters locked the entrance to the Imam Bargah. After the chaos settled down, participants of the protest and relatives of the victims once again entered into discussions and decided to carry forward the burial. The authorities then brought the dead bodies to the Hazara Town graveyard. Capital City Police Officer (CCPO) Quetta Zubair Mehmood said, “Few people got emotional during the process but everything is under control now.” He also said that an FIR will be launched against the miscreants. ====== کوئٹہ الرٹ : کرانی روڈ واقعے میں زخمی ہونے والی مومنہ گل افشا زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگئی۔ اب شہداٴ کی تعداد 114 ہوگئی۔ بی بی زھرا (س) کی مہمان مرحبا ، صد مرحبا USA TODAY, an American newspapers: The biggest problem of America in Iran, is the existence of a "super opponent "who is Ayatollah Khamenei .he knows the roadmap and people trust him with faith! ﺍﯾﮏ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺍﺧﺒﺎﺭ ﻧﮯ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ : ﺍﻣﺮﯾﮑﮧ ﮐﯽ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﻣﺸﮑﻞ، ﺍﯾﮏ ﻋﻈﯿﻢ ﻣﺠﺎﮨﺪ، ﺟﻮ ﮐﮧ ﺁﯾﺖ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﯿﺪ ﻋﻠﯽ ﺧﺎﻣﻨﮧ ﺍﯼ ﮨﮯ۔ ﻭﮦ ﺭﮦ ﺣﻞ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﭘﺮ ﯾﻘﯿﻦ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻟﻠﻬﻢ ﺍﺣﻔﻆ ﻟﻨﺎ ﺳﯿﺪﻧﺎ ﺍﻟﻘﺎﺋﺪ ! ﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ! ﺭﮨﺒﺮ ﻣﻌﻈﻢ ﮐﺎ ﺳﺎﯾﮧ ﮨﻢ ﭘﺮ ﻇﮩﻮﺭ ﺍﻣﺎﻡ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﺗﮏ ﻗﺎﺋﻢ ﺭﮐﮫ = آرمی چیف بتانا پسند کرینگے کوئٹہ کی روڈ پر بیٹھی ہوئی پاکستان کی بیٹیاں جن کی آنکھوں میں آنسو ہیں؛ کیا اس منظر کو دیکھ کر مدینہ والے سرکار خوش ہونگے یا خون کے آنسو رو رہے ہونگے؟ حوا کی بیٹی کو کیا صرف اس جرم میں رونے دیا جارہا ہے کیونکہ اس ملک میں "نام حسین" لینا جرم ہے؟ =========== Victims of terrorism: Australia offers asylum to 2,500 Hazara families The asylum to Pakist­ani Hazara famili­es offere­d on humani­tarian ground­s. By Web DeskPublished: February 21, 2013 Protesters staged a sit-in in front of the Governor House in Lahore to protest Shia killings. PHOTO: INP/ FILE The Australian government has offered asylum to 2,500 Hazara families of Pakistan who have been affected by terrorism, reported Express News on Thursday. The asylum was offered on humanitarian grounds. Last week, a representative of Australian immigration department met with United Nations officials to make the asylum offer. Over 80 residents of the Shia Hazara neighbourhood in Quetta were killed when over 800 kilogrammes of explosives packed in a vehicle detonated in the middle of a busy bazaar on February 16. The attack led to countrywide agitation, with families refusing to bury their loved ones till their demands of the army taking over the city and targeted operation against the perpetrators were met. In January, twin blasts in Quetta killed over a 100 people and left over 300 injured. After being continuously attacked by militant outfits, the Shia Hazaras went on strike across the country demanding the government to take immediate action. Correction: An earlier version of the article incorrectly mentioned February 6 as the date of the Quetta bombing instead of February 16. The error has been rectified. میں ایک سنی ہوں لیکن کوئٹہ کے اس افسوس ناک واقعے پہ ماتم کر رہا ہوں ۔ - مبشر لقمان مجھے علی شیر حیدری (سپاہ صحابہ) نے بتایا تھا کہ ابھی ہم شیعہ کو مار رہیں ہیں ، اس کے بعد تم لوگوں کی باری آئے گی۔ - فرزندِ شہید علامہ نعیمی (اہل سنت) ============== آپ نے دیکھا ہوگا کہ چند میڈیا اینکرز اور ہمارے صفوں میں چُھپی کالی بھیڑیں کوئٹہ میں جاری شیعہ نسل کشی کو "ہزاہ کمیونٹی کے قتل عام" کا نام دیتے ہیں۔ وہ اس لیے کے"ہزارہ" قتل عام ظاہر کرکے دوسرے ممالک میں پناہ کی درخواست دی جاتی ہے، کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں ہماری جان کو خطرہ ہے تو کوئی اور ممالک ہمیں اپنے ملک میں قبول کریں!! یہ عمل کئی سالوں سے جاری ہے،آج آسٹریلیا حکومت نے بھی اعلان کیا ہے کہ 25 ہزار "ہزارہ" خاندانوں کو آسٹریلیا پناہ دینے کے لیے تیار ہے!یہ عمل پاکستان میں رہنےوالے 5 کڑوڑ شیعوں کی توہین ہے! یہ قتل عام ہزارہ قتل عام نہیں بلکہ شیعہ نسل کشی ہے۔ کیونکہ کوئٹہ میں تو راولپنڈی کے زائرین بھی شہید ہوچکے ہیں!! یہ ملک ہمارا ہے ہم نے بنایا ہے۔ موت کے خوف سے اپنی کربلا چھوڑ جانا کسی صورت بھی حسینی عمل نہیں!! پاکستانی میڈیا کا ایک اور شرمناک جھوٹ پکڑا گیا !!! مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز پر کوئٹہ کے 7000 شیعہ ہزارہ کو آسٹریلیا کی طرف سے سیاسی پناہ دینے والی خبر جھوٹی نکلی۔ کینبرا آسٹریلیا کی امیگریشن ڈپارٹمنٹ کی ایک اعلیٰ آفیشل کی طرف سے ٹوئٹر پر پیغامات نے پاکستانی میڈیا کی غلط خبروں کو سختی سے رد کر دیا۔ اب معلوم ہو رہا ہے یہ میڈیا کن قوتوں کے بل بوتے پر پل رہا ہے اور کس گھٹیا طریقے سے کوئٹہ کے مظلوم شیعوں کی مذہبی شناخت مٹا کر اور انہیں پاکستان کے عظیم تشیعُ کے پیکر سے کاٹ کر فقط ایک لسانی اور نسلی برادری کا نام دینے کی کوشش کر رہا ہے اور ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ Sandi Logan: National Communications Manager at Dept Immigration and Citizenship, Canberra. http://www.pakistan.embassy.gov.au/islm/PR130221-Hazara.html — Fake News Spread by Pakistan Print & Electronic Media (5 photos) ==================== کوئٹہ الرٹ: منافقین کی منافقت جاری.... ہزارہ ٹاؤن دھرنا کے منظور شدہ مطالبات کی نگران تین رکنی کمیٹی میں سے علامہ امین شہیدی کو نکال دیا گیا. کمیٹی اب سردار سعادت، حاجی قیوم اور رقیہ ہاشمی پر مشتمل ہے. یہ تو وہی لوگ ہیں جو دھماکے کی پہلی رات ہی دھرنا ختم کروانا چاہتے تھے، ان سے بھلائی کی امید بھلا کون رکھے گا؟؟؟ =========
Zakaria Masomi i promise an guarante thid damn page has nothing more than to divide and disperse our nation,,, this fking page sees everyone as demon and only inocent and angel is the fking ullama,,, go to hell u with ur fking ullamas,, we dont need them,,, if pak people demonstrate coz of ullamas so we dont need them,,, protest for humanity, for justice and for cruelity not for ur ulama damn fking morons everywhere..
آپ نے دیکھا ہوگا کہ چند میڈیا اینکرز اور ہمارے صفوں میں چُھپی کالی بھیڑیں کوئٹہ میں جاری شیعہ نسل کشی کو "ہزاہ کمیونٹی کے قتل عام" کا نام دیتے ہیں۔ وہ اس لیے کے"ہزارہ" قتل عام ظاہر کرکے دوسرے ممالک میں پناہ کی درخواست دی جاتی ہے، کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں ہماری جان کو خطرہ ہے تو کوئی اور ممالک ہمیں اپنے ملک میں قبول کریں!! یہ عمل کئی سالوں سے جاری ہے،آج آسٹریلیا حکومت نے بھی اعلان کیا ہے کہ 25 ہزار "ہزارہ" خاندانوں کو آسٹریلیا پناہ دینے کے لیے تیار ہے!یہ عمل پاکستان میں رہنےوالے 5 کڑوڑ شیعوں کی توہین ہے! یہ قتل عام ہزارہ قتل عام نہیں بلکہ شیعہ نسل کشی ہے۔ کیونکہ کوئٹہ میں تو راولپنڈی کے زائرین بھی شہید ہوچکے ہیں!! یہ ملک ہمارا ہے ہم نے بنایا ہے۔ موت کے خوف سے اپنی کربلا چھوڑ جانا کسی صورت بھی حسینی عمل نہیں!! ========== پرچمِ عباس تلے ایک ہو جاوٴں اور فروخت شدہ ضمیر فروشوں کو نکال باہر کردو!!! جب میں چھوٹاتھا تو اپنے والدین سے آخری زمانے کے بارے میں ، اس کی نشانیوں کے بارے میں مختلف باتیں سنتا لیکن ہنس کے پھر کھیل کود میں مصروف ہوجاتا۔ اب اُن نشانیوں کو کم و بیش پورا ہوتے دیکھ رہا ہوں۔ ان نشانیوں میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ظالم و مظلوم، جابر و مجبور اور مومن و منافق میں فرق واضح ہوجائے گا۔ آج یہ ہوتا دیکھ رہا ہوں ۔ ستم کی داستان کندھوں پہ اٹھائے ، ظالم کا نقشہ آنکھوں میں بسائے، مجبور کو جابر کے سامنے سر جھکائے اور منافق کو نت نئے حربےاستعمال کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں ۔ کھبی کفر کا فتوٰی دیتے زمینی خدا بنے ظالم سامنے آئے تو کھبی فرقہ وارانہ فسادات کا نام دیتے ہوئے مجبور آشکار ہوئے ۔ کھبی نسلی رنگ دے کر ہمارے شیعہ طاقت و یکجہتی کو سبوتاش کرتےاور بلا وجہ جنگ و جدل پیھلاتے ہوئے منافق پہچانے گئے تو کھبی انہی منافقین کو یک دست ہوتے اپنے پیٹھ بھرتے ہوئے دیکھا۔ مگر میں گھبرایا ہرگز نہیں ۔ کیونکہ یہ سب خود ہی اپنے آپ کی پہچان کرواتے پھر رہیں ہیں ۔ اصل میں ہو یہ رہا ہے کہ ان کی ذلت اور پستی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ تم بھی گھبرانا نہیں میرے عزیزوں!!! ستم کے آندھی تو چل کے نکل پڑے گی لیکن تمہارا احتساب ہوگا ، ضرور ہوگا۔کہی تمہارا گردن سرِِ محشر خم نہ ہونے پائے۔۔۔۔ ============== ’ایک ہزار سے زائد شیعہ ہزارہ ہلاک، دو لاکھ نقل مکانی پر مجبور‘ آخری وقت اشاعت: جمعـء 22 فروری 2013 ,‭ 17:31 GMT 22:31 PST Facebook Twitter دوست کو بھیجیں پرنٹ کریں . لاکھوں ہزارہ نقل مکانی پر مجبورٹارگٹڈ آپریشنز جاری، حالات بدستور کشیدہ.عنبر شمسی بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد شیعہ ہزارہ آبادی کو زیادہ تر کوئٹہ اور مستونگ میں نشانہ بنایا گیا ہے پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں رہائش پذیر ہزارہ برادری اپنے عقیدے اور نسل دونوں کی بنیاد پر نشانہ بنائی جا رہی ہے اور اب تک جہاں ایک ہزار سے زائد شیعہ ہزارہ اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں وہیں ہزارہ تنظیموں کے مطابق دو لاکھ ایسے ہیں جنہوں نے اپنا گھر بار چھوڑ کر ملک کے دیگر علاقوں یا پھر بیرونِ ملک پناہ لی ہے۔ پاکستان میں حقوقِ انسانی کے لیے سرگرم ادارے ہیومن رائٹس کونسل آف پاکستان کے مطابق 1999 سے 2012 تک تیرہ برس کے عرصے میں آٹھ سو شیعہ ہزارہ ہلاک کیے گئے جبکہ رواں برس کے ابتدائی چند ہفتوں میں ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں میں دو سو سے زائد افراد کی جان گئی۔ کوئٹہ میں قیام پذیر ہزارہ رہنما عبدالقیوم چنگیزی کا کہنا ہے کہ جہاں ہلاک ہونے والے ہزارہ افراد میں سے اسّی فیصد اپنے عقیدے کی بنا پر نشانہ بنائے جاتے ہیں وہیں بیس فیصد ہلاکتوں کی بنیاد نسلی ہے۔ ہزارہ برادری کی تنظیم ہزارہ قومی جرگہ اور شیعہ تنظیم قومی یکجہتی کونسل کے اعدادوشمار کے مطابق جان و مال کو درپیش خطرات کی وجہ سے 1999 سے لے کر اب تک تقریباً دو لاکھ ہزارہ بلوچستان چھوڑ کر پاکستان کے دیگر شہروں میں منتقل ہوئے یا پھر ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ نقل مکانی کرنے والے ہزارہ خود تو شہر چھوڑ آئے ہیں لیکن اب انہیں یہ خوف ستاتا رہتا ہے کہ پیچھے رہ جانے والے نہ جانے کب نشانہ بن جائیں۔ زینب خود تو اسلام آباد آ گئیں تاہم ان کی والدہ اور بہن کوئٹہ میں ہی ہیں۔ ’میری بوڑھی ماں اور اکیس سالہ بہن اکیلے رہنے پر مجبور ہیں کیونکہ ہم نے اپنے دونوں بھائیوں کو پاکستان سے باہر بھجوا دیا ہے۔‘ 1999 سے 2012 تک تیرہ برس کے عرصے میں آٹھ سو شیعہ ہزارہ ہلاک کیے گئے زینب پاکستان سے باہر چلے جانے کے باوجود اپنے بھائیوں کے بارے میں اس خدشے کے تحت بات کرنے کو تیار نہ تھیں کہ انہیں پاکستان سے باہر بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ یہ خوف ایسا ہے کہ پاکستان سے ہزاروں میل دور چلے جانے کے باوجود ہزارہ اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔ پچیس سالہ بتول گذشتہ سال امریکہ پہنچیں۔ انہوں نے اپنے خاندان کو نہیں بتایا تھا کہ وہ یہاں مستقل رہنے کے لیے آئی ہیں۔ ڈیڑھ ماہ تک دربدر ٹھوکریں کھانے کے بعد انہوں نے نیویارک کے علاقے کوئینز میں خواتین کے لیے قائم کردہ مسلم شیلٹر میں رہائش اختیار کی۔ وہ اب سیاسی پناہ کے حصول کے لیے کوشاں ہیں مگر جنہیں پیچھے چھوڑ آئیں انہیں بھولنا بتول کے لیے بہت مشکل ہے۔ ’یہ میرے لیے بہت مشکل فیصلہ تھا۔ میں جب خبروں میں کوئٹہ کے ہزارہ قبرستان کی تصویریں دیکھتی ہوں، تو تسلیم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ اتنے سارے لوگوں کو میں جانتی تھی وہ اب ہم میں نہیں ہیں۔‘ ایچ آر سی پی کی سربراہ زہرہ یوسف کے مطابق بلوچستان میں شیعہ ہزارہ آبادی کو زیادہ تر کوئٹہ اور مستونگ میں نشانہ بنایا گیا ہے اور ان اضلاع میں کالعدم تنظیم لشکرِ جھنگوی کی واضح موجودگی ہے۔ رواں برس کوئٹہ کے ہزارہ ٹاؤن میں پہلے علمدار روڈ اور پھر کرانی روڈ پر ہونے والے دونوں بڑے دھماکوں کی ذمہ داری بھی لشکرِ جھنگوی نے ہی قبول کی ہے۔ بلوچستان کے سیکریٹری داخلہ اکبر درانی نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان دو واقعات کو روکنے میں انٹیلیجینس کی کمزوری ضرور تھی۔’ان تمام دنوں میں جب ہائی الرٹ رہا تو کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن اس بار دہشت گردوں نے بارودی مواد تیار کرنے کے لیے نیا طریقہ استعمال کیا، جس کی ہمارے پاس معلومات نہیں تھیں۔‘ اس بار دہشت گردوں نے بارودی مواد تیار کرنے کے لیے نیا طریقہ استعمال کیا، جس کی ہمارے پاس معلومات نہیں تھیں: اکبر درانی اس سوال پر کہ کیا یہ کمزوری کی بجائے ناکامی نہیں، انہوں نے کہا ’جائز سوال ہے کہ خفیہ ایجنسیاں کہاں تھیں۔ دراصل ہم ایک واقعے کو دیکھ رہے ہیں، ان نو واقعات کو نہیں دیکھتے جو روکے گئے۔ ہم نے شہریوں کو ان ممکنہ واقعات سے محفوظ رکھا ورنہ اس سے کئی گنا زیادہ نقصان ہوتا۔اس طرح ہم ایجنسیوں کو موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔‘ ہزارہ رہنما بھی ان دھماکوں کو صرف انٹیلیجنس کی ناکامی قرار دینے کے حق میں نہیں۔ اسلام آباد میں مقیم نوجوان ہزارہ رہنما سجاد چنگیزی کا کہنا ہے کہ ’ہم بار بار کہتے رہے ہیں کہ یہ ایک ستون کی ناکامی نہیں ہے۔ پولیس انہیں گرفتار کرنے میں ناکام رہتی ہے، عدلیہ بھی انہیں سزا دینے میں ناکام ہے۔ اسمبلیوں میں قانون سازی نہیں ہوتی اور خفیہ ادارے ان کو چھوٹ دیتے ہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر پاکستانی ریاست اسی طرح نااہل رہی، تو بلوچستان سے ایک اقلیتی برادری کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ ہزارہ قبیلے کی وجود کو خطرہ لاحق ہے تاہم، ہم آخری دم تک پرامن طریقے سے مزاحمت کریں گے۔‘ امریکی و سعودی نواز لشکر یزید کے سرغنے کا اعتراف جرم / قتل کہاں ہے چیف جسٹس ؟ کہاں ہیں پاکستان میں قائم امن و امان کے ادارے ؟ کیوں بے گناہ اور مظلوم انسانوں کے قاتل کو آزاد چھوڑا ہوا ہے ؟ کیوں حکومتی ادارے اتنے بے بس ہیں ؟ ... کیا یہ ان قاتلوں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے گرفتار کیا جاتا ہے ؟ تاکہ ان قاتلوں کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے اور حکومت ان اثاثوں کو محفوظ رکھنا چاہتی ہے ؟ حکومتی اور قانون نافذ کرنے والوں کے لئے ایک چیلنچ ہے کہ سینکڑوں بے گناہ انسانوں کا قاتل کھلم کھلا دھمکی بھی دے رہا ہے اور حکومت اسے تحفظ فراہم کرنے کیلئے گرفتار کرتی ہے تاکہ اس کی جان کو خطرہ نہ ہو۔ کہاں ہیں انصاف کے ٹھیکیدار کیوں انصاف نہیں کرتے ؟ کیا ان کی ان سے کوئی رشتہ داری ہے یا ان کی باگ دوڑ بھی کسی اور کے ہاتھ میں ہے ؟؟؟؟؟ کم از کم تین دہائیوں سے جاری اس شیعہ کش مہم کی فکری بنیاد ہو سکتا ہے کہیں اور پڑی ہو۔ ریال اور دینار شاید ہمارے برادر اسلامی ملکوں سے آئے ہوں، لیکن اب یہ مقامی مشن ہے اور اب اس کے تانے بانے سپاہ صحابہ کے مسجد اور مدرسوں سے نکل کر بازاروں میں پڑے چندے کے ڈبوں، عدالتوں میں سہمے ہوئے ججوں سے ہوتے ہوئے خفیہ اداروں کے ان مفکروں تک جا ملتے ہیں جو اپنے آپ کو ہماری نظریاتی سرحدوں کے محافظ کہتے ہیں۔ شیعہ نہیں پاکستانی مارے جا رہے ہیں کی پالیسی پر عمل کر کے انشورنس پالیسی لینے والوں میں وہ سینیئر صحافی بھی جو تیس سال سے اس مہم کے گواہ ہیں لیکن قاتلوں کا نام لیتے ہوئے یوں شرماتے ہیں جیسے پردہ دار بیویاں اپنے شوہر کا نام لیتے ہوئے شرماتی ہیں۔ ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارہ "بی بی سی" کھلم کھلا دہشتگرد ملک اسحاق کا انٹرویو نشر کررہا ہے جس میں لفظ "شیعہ" استعمال کرکے پاکستان میں رہنے والی 5 کڑوڑ شیعہ مسلمانوں پر تنقید کی جارہی ہے۔ کیا یہ ہے آزادی صحافت؟ اور تو اور پاکستان کا ایک ٹی وی چینل "ایکسپریس" اُسی پروگرام کو نشر بھی کررہا ہے اور ہمارا پیمراسورہا ہے؟ اس نازک وقت میں جب 40 دنوں میں 200 شیعہ مسلمانوں کو شہید کیا جاچکا ہے۔ صحافت کا اتنا غیر زمہ دارانہ عمل کیا اس ملک کے امن میں فائدہ مند ہوگا؟ اس وقت تو محبت کی باتیں کرنی چاہیے تاکہ احترام کا درس دیا جاسکے، لیکن اُلٹا نفرتوں کا بازار گرم کیا جارہا ہے ___ یہ کیسا ملک ہے؟ یہ کیسی حکومت ہے؟ جو اپنے شہریوں کی بنیادی حقوق کا بھی خیال نہیں رکھتی = امریکی و سعودی نواز لشکر یزید کے سرغنے کا اعتراف جرم / قتل کہاں ہے چیف جسٹس ؟ کہاں ہیں پاکستان میں قائم امن و امان کے ادارے ؟ کیوں بے گناہ اور مظلوم انسانوں کے قاتل کو آزاد چھوڑا ہوا ہے ؟ کیوں حکومتی ادارے اتنے بے بس ہیں ؟ ... کیا یہ ان قاتلوں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے گرفتار کیا جاتا ہے ؟ تاکہ ان قاتلوں کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے اور حکومت ان اثاثوں کو محفوظ رکھنا چاہتی ہے ؟ حکومتی اور قانون نافذ کرنے والوں کے لئے ایک چیلنچ ہے کہ سینکڑوں بے گناہ انسانوں کا قاتل کھلم کھلا دھمکی بھی دے رہا ہے اور حکومت اسے تحفظ فراہم کرنے کیلئے گرفتار کرتی ہے تاکہ اس کی جان کو خطرہ نہ ہو۔ کہاں ہیں انصاف کے ٹھیکیدار کیوں انصاف نہیں کرتے ؟ کیا ان کی ان سے کوئی رشتہ داری ہے یا ان کی باگ دوڑ بھی کسی اور کے ہاتھ میں ہے ؟؟؟؟؟ ============== اس بات میں کوئی شک نہیں کہ گذشتہ سال اور بالخصوص پچھلے دو مہینے کوئٹہ کے ہزارہ برادری پر عذاب جھنگوئی بن کر گذرے ہیں۔ان تمام واقعات میں انسانی جانوں کا ضیاع تو اپنی جگہ پر ایک عظیم المیہ ضرور ہے لیکن ان حالات نے ہزارہ قوم کو اس طوفان سے آشنا کردیا ہے جس کے بارے میں لگتا ہے کہ علامہ اقبال نے ہزارہ قوم ہی سے شکایت کی تھی ’’کہ بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں‘‘۔میرے خیال میں ہزاروں نے اپنے اتحاد اور یکجہتی سے صرف دو مہینوں میں وہ کام کردیکھایا جو بلوچ سیاست دان دس سالوں میں نہ کرسکے۔ ہزاروں کو شکایت ہے کہ لشکرِ جھنگوئی کو فوج سے منسلک خفیہ اداروں کی حمایت حاصل ہے اور بلوچ بھی یہی کہتے ہیں کہ لاپتہ افراد اور مسخ شدہ لاشوں کے پیچھے فوج اور ایجنسیاں ہیں۔ لیکن ایسا کیو ں ہوا کہ تین سے پانچ لاکھ کی آبادی والے ہزاروں نے پورے ملک کو ہلاکر رکھ دیا ہے؟ ہزاروں میں کیا خوبی تھی جس نے بلوچستان کی پوری حکومت اکھاڑ کر پھینک دی؟ ہزاروں نے کیا کیا جس کی وجہ سے فوج کے ترجمان کو جھک کر یہ بیان دینا پڑا کہ فوج کا لشکر جھنگوئی کے سا تھ کوئی تعلق نہیں ہے ؟ جو لوگ کہتے تھے کہ پاکستانی میڈیا بلوچستان پر خاموش ہے وہ یہ بتائیں کہ ہزاروں نے کیسے پاکستانی نیوز میڈیا میں اپنی خبر سب سے بڑی خبر بنا کر پیش کی؟ اتنی چھوٹی قوم نے بی بی سی سے لے کر الجزیرہ پر کیسے اپنی ہلاکت کی خبر کو چوبیس گھنٹوں تک زندہ رکھا بلکہ اسے عالمی خبروں میں بھی شہ سرخی بنادی؟ ہزاروں کے پاس جادوکی کونسی چھڑی ہے جس نے سپریم کورٹ کو سوموٹو نوٹس لینے پر مجبور کیا اور وزیراعظم سے لے کر عمران خان تک سب کوئٹہ کی طرف دوڑیں مارنے پر مجبور ہوگئے؟ ایک ایسی قوم جس کے پاس قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں صرف ایک ایک نشست ہو اس نے وفاقی حکومت ، فوج اور عدلیہ کو اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنے پر کیسے مجبور کیا ؟ جی ہاں ایک ایسی قوم جس پر ایران اور پاکستان کا ایجنٹ ہونے کا الزام ہو اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے حوالے سے اس بات کا بھی اعتراف کیا جائے کہ یہ قوم پاکستانی خفیہ اداروں کی حمایت یافتہ لشکر جھنگوئی کی دہشت گردی اور سعودی عرب کی طرف مذہبی انتہا پسندی کو پروان چڑھانے کے لئے آنے والے انسان دشمن پیسوں کی وجہ سے دہشت کا شکار ہوگئی ہے۔ ایک ہزار جانوں کی قربانی دینے کے باوجود ہزارہ قوم نے ایک گولی چلائے بغیر اپنے مسئلے کو کیسے پوری دنیا کے سامنے اجا گر کیا؟ کون کہتا ہے کہ پاکستان یا بلوچستان میں پر امن تبدیلی نہیں آسکتی؟ کیا ہزاروں نے دو ہفتوں میں یہ سب کچھ کرکے نہیں دیکھا یا؟ جی ہاں لیکن یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوا؟ اس کا صرف ایک سادہ سا جواب ہے اور وہ ہےاتحاد ویک جہتی۔ہرگھر اور قبیلے میں لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں لیکن جب بات ان کی قومی بقا پر آگئی تو انھوں نے ایک دوسرے کا ’’ ایجنٹ‘‘، ’’ غدار‘‘ اور ’’ ہزارہ دشمن‘‘ کہہ کر اپنے دشمن کو فائد ہ نہیں پہنچایا۔ گھریلو اختلافات کو ظاہر کرکے ہزاروں نے اپنے دشمن کو اپنی چھوٹی سے چھوٹی کمزوری نہیں دیکھائی۔جب احتجاج کی باری آئی تو ان کی ماوں، بہنوں ، بچوں اور بوڑھوں نے ہلاک شدگاں کی لاشیں لے کر کوئٹہ کی بد ترین سردی میں کئی دن اور راتوں تک مظاہرے کئے۔ جب قومیں اس حد تک متحد ہوں انھیں دنیا کی کوئی جھنگوئی لشکر شکست نہیں دے سکتی ۔ دوسری طرف نظریں ڈالیئے۔ بلوچستان میں گذشتہ دس سالوں میں بلوچوں پر کون کون سے مظالم نہیں ڈالے گئے؟ کیا ایشیا کے کسی بھی خطے میں اتنے لوگ ایک ساتھ لاپتہ ہیں جتنے بلوچستان سے لاپتہ ہوئے ہیں؟ کیا اکیسویں صدی میں کہیں بھی کسی قو م کی نسل کشی اس دیدا دلیری کی ساتھ کی جارہی ہے کہ مسخ شدہ لاشوں کے ساتھ پرچیاں ڈال کر انھیں ’’عید کا تحفہ‘‘ سمجھ کر بیج دیا جائے۔ کیا دنیا میں کوئی خطہ ایسا بھی ہے جس کے معدنی وسائل پر دنیا کی دارلحکومتوں میں معائدے طے پائیں اور عالمی تھنک ٹھینکس میں ان معاہدات کے حوالے سے بحث و مباحثہ ہو اور خود اس سرزمین پر انسان افریقی ممالک سے بھی بد ترین غربت کی زندگی بسر کررہےہوں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ بلوچ اپنے اوپر ہونے والے مظالم پر کبھی ایک بن کر نہیں اٹھ سکے؟ کیا بی این پی ، این پی، جے ڈبلیو پی، بی این ایم ، بی آر پی نے کبھی یہ سوچا کہ آزادی اور خود مختاری پر ہمارا اختلاف رائے تو ہوسکتا ہے لیکن مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی ، فوجی آپریشن تو ہمارا قومی مسئلہ ہے؟ کیا دوہزار چھ کو قلات جرگہ کے بعد بلوچ رہنماوں نے دنیا کے کسی بھی کونے میں مل بیٹھ کر ایک پریس کانفرنس کی؟ کیا بلوچ رہنما کسی ایک بات پر متفق ہوسکتے؟ شاید بلوچوں اور ہزاروں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ان کے پاس’’ توار‘‘ اور ’’انتخاب ‘‘جیسے اخبار نہیں ہیں اور انھیں اخباری بیان بازی کا شوق نہیں لگا ہے یا ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ انھیں پتہ ہے کہ قومیں اپنی جنگیں صرف اخباری بیان بازی کے ذریعے نہیں لڑتی ہیں۔کاش بلوچ کسی ایک مسئلے پرایک ہوتے۔ لاپتہ افراد کو حیربیار مری اور برہمداغ بگٹی کے فریڈم چارٹر سے کوئی غر ض نا اختر مینگل کی سپریم کورٹ سے اور نہ ہی ڈاکٹر مالک کی پارلیمنٹ سے۔ انھیں تو صرف اس بات سے غرض ہے کہ وہ جلد از جلد بازیا ب ہوکر اپنے خاندانوں سے ملیں۔ ڈیرہ بگٹی اور کوہلو میں فوجی آپریشن کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے لیکن ان تمام سیاسی رہنماوں کی ذاتی آنا ، حسد اور نااتفاقی نے انھیں ایک دن بھی اکھٹے نہیں ہونے دیا۔گذشتہ ایک دہائی میں بلوچ رہنماوں اور کارکناں نے اپنی نصف سے زیادہ توجہ وتوانائی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے ، غداری اور مخبری کے فتوے لگانے میں ضائع کئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب ہوگا کیا ؟ بلوچ سیاست دانوں کے رویے اس وقت تبدیل ہوں گے جب ماما قدیر یہ مطالبہ کریں گے کہ ’’توار‘‘ اخبار میں ان کے قصیدے لکھنے یا لکھوانے کے بجائے بلوچ رہنما ان کا شانہ بشانہ اسی طرح گورنر ہاوس اور وزیراعلیٰ ہاوس کا محاصرہ کریں جس طرح ہزاروں نے کیا تھا۔ جب لاپتہ ہونے والوں کے بچے انھیں کہیں کہ آپ اپنی سیاست شوق سے کریں اور اپنی انا کی پرستش بھی لیکن کم از کم حصول انصاف میں تو ہمارے ساتھ رئیں۔ بلوچوں کے لئے موقع ہے کہ وہ ہزاروں کے اتحاد ویکجہتی سے سبق سیکھیں ۔ بی بی سی اردو کا کہنا ہے کہ دو لاکھ کے قریب ہزارہ کوئٹہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں اور شاید باقی بچارے بھی بلوچستان اور پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہوں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر دنیا کے کسی کونے (مثلاً آسٹریلیا ) میں چند ہزار ہزارے بھی باقی رئیں گےیہ قوم یہودیوں کی طرح ایک بار پھر ابھر ےگی۔( میں یہودیوں کا بڑا احترام کرتا ہوں لہذہ مذہبی سوچ رکھنے والے لوگ اس مشابہت پر ناراض نہ ہوں۔ میں یہودیوں کو ایک کامیاب اور گر کر اٹھنے والی سمجھ دار قوم تصور کرتا ہوں) ۔ ہزاروں کے حوالے سے میں یہ بات اس لیئے تحریر کر رہا ہوں کہ مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہ پڑے کہ ’’میر ی بات لکھ کر یاد رکھیں‘‘۔ اس منظم قوم کے بچے آج سےچند سال بعد بڑے ہوں گے اور ان میں سے عالمی شہرت کے سائنس دان اور مصنفیں و منصفیں پیدا ہوں گے کیوں کہ یہ قوم متحد ہے اور اور دنیا میں متحد و منظم لوگوں کو دنیا کی کوئی طاقت جھکا نہیں سکی ہے۔ اور جو قومیں تقسیم در تقسیم رہتی ہیں انھیں دنیا کی کوئی قوت اکھٹی نہیں رکھ سکتی ========== علامہ عارف واحدی نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر ملی وحدت کے خلاف کام کرنے والے ملت کی خدمت نہیں کر رہے اور یہ کام کسی طور پر بھی شرعاً جائز نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ بڑے عرصہ بعد قوم میں وحدت پیدا ہوئی ہے جس پر دشمن پریشان ہے، لہٰذا کوئی بھی شخص خواہ اس کا کسی بھی تنظیم سے تعلق ہو اسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی بھی شیعہ شخصیت، علماء کرام اور تنظیمی افراد کے خلاف بدزبانی کرے یا منفی پروپیگنڈا کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ان تمام افراد کی مذمت کرتے ہیں جو تنظیمی خول میں رہ کر کسی دوسری تنظیم یا شخصیت کے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ خفیہ ایجنسیوں کے تین سو اہلکار تبدیل کرنے کا فیصلہ bbc urdu news ============ Insight: Spiral of Karachi killings widens Pakistan's sectarian divide Sat, Feb 23 20:01 PM EST 1 of 3 By Matthew Green KARACHI (Reuters) - When Aurangzeb Farooqi survived an attempt on his life that left six of his bodyguards dead and a six-inch bullet wound in his thigh, the Pakistani cleric lost little time in turning the narrow escape to his advantage. Recovering in hospital after the ambush on his convoy in Karachi, Pakistan's commercial capital, the radical Sunni Muslim ideologue was composed enough to exhort his followers to close ranks against the city's Shi'ites. "Enemies should listen to this: my task now is Sunni awakening," Farooqi said in remarks captured on video shortly after a dozen gunmen opened fire on his double-cabin pick-up truck on December 25.
"I will make Sunnis so powerful against Shi'ites that no Sunni will even want to shake hands with a Shi'ite," he said, propped up in bed on emergency-room pillows. "They will die their own deaths, we won't have to kill them."
Such is the kind of speech that chills members of Pakistan's Shi'ite minority, braced for a new chapter of persecution following a series of bombings that have killed almost 200 people in the city of Quetta since the beginning of the year. While the Quetta carnage grabbed world attention, a Reuters inquiry into a lesser known spate of murders in Karachi, a much bigger conurbation, suggests the violence is taking on a volatile new dimension as a small number of Shi'ites fight back. Pakistan's Western allies have traditionally been fixated on the challenge posed to the brittle, nuclear-armed state by Taliban militants battling the army in the bleakly spectacular highlands on the Afghan frontier. But a cycle of tit-for-tat killings on the streets of Karachi points to a new type of threat: a campaign by Lashkar-e-Jhangvi (LeJ) and allied Pakistani anti-Shi'ite groups to rip open sectarian fault-lines in the city of 18 million people. Police suspect LeJ, which claimed responsibility for the Quetta blasts, and its sympathizers may also be the driving force behind the murder of more than 80 Shi'ites in Karachi in the past six months, including doctors, bankers and teachers. In turn, a number of hardline Sunni clerics who share Farooqi's suspicion of the Shi'ite sect have been killed in drive-by shootings or barely survived apparent revenge attacks. Dozens of Farooqi's followers have also been shot dead. Discerning the motives for any one killing is murky work in Karachi, where multiple armed factions are locked in a perpetual all-against-all turf war, but detectives suspect an emerging Shi'ite group known as the Mehdi Force is behind some of the attacks on Farooqi's men. While beleaguered secularists and their Western friends hope Pakistan will mature into a more confident democracy at general elections due in May, the spiral of killings in Karachi, a microcosm of the country's diversity, suggests the polarizing forces of intolerance are gaining ground. "The divide is getting much bigger between Shia and Sunni. You have to pick sides now," said Sundus Rasheed, who works at a radio station in Karachi. "I've never experienced this much hatred in Pakistan." Once the proud wearer of a silver Shi'ite amulet her mother gave her to hang around her neck, Rasheed now tucks away the charm, fearing it might serve not as protection, but mark her as a target. "INFIDELS" Fully recovered from the assassination attempt, Farooqi can be found in the cramped upstairs office of an Islamic seminary tucked in a side-street in Karachi's gritty Landhi neighborhood, an industrial zone in the east of the city. On a rooftop shielded by a corrugated iron canopy, dozens of boys wearing skull caps sit cross-legged on prayer mats, imbibing a strict version of the Deobandi school of Sunni Islam that inspires both Farooqi and the foot-soldiers of LeJ.
"We say Shias are infidels. We say this on the basis of reason and arguments," Farooqi, a wiry, intense man with a wispy beard and cascade of shoulder-length curls, told Reuters. "I want to be called to the Supreme Court so that I can prove using their own books that they are not Muslims."
Farooqi, who cradled bejeweled prayer beads as he spoke, is the Karachi head of a Deobandi organization called Ahle Sunnat wal Jama'at. That is the new name for Sipah-e-Sahaba Pakistan, a forerunner banned in 2002 in a wider crackdown on militancy by Pakistan's then army ruler, General Pervez Musharraf. Farooqi says he opposes violence and denies any link to LeJ, but security officials believe his supporters are broadly aligned with the heavily armed group, whose leaders deem murdering Shi'ites an act of piety. In the past year, LeJ has prosecuted its campaign with renewed gusto, emboldened by the release of Malik Ishaq, one of its founders, who was freed after spending 14 years in jail in July, 2011. Often pictured wearing a celebratory garland of pink flowers, Ishaq has since appeared at gatherings of supporters in Karachi and other cities. In diverse corners of Pakistan, LeJ's cadres have bombed targets from mosques to snooker halls; yanked passengers off buses and shot them, and posted a video of themselves beheading a pair of trussed-up captives with a knife. Nobody knows exactly how many Shi'ites there are in Pakistan -- estimates ranging from four to 20 percent of the population of 180 million underscore the uncertainty. What is clear is that they are dying faster than ever. At least 400 were killed last year, many from the ethnic Hazara minority in Quetta, according to Human Rights Watch, and some say the figure is far higher. Pakistani officials suspect regional powers are stoking the fire, with donors in Saudi Arabia and other Sunni-dominated Gulf countries funding LeJ, while Shi'ite organizations turn to Iran. Whatever factors are driving the violence, the state's ambivalent response has raised questions over the degree of tolerance for LeJ by elements in the security establishment, which has a long history of nurturing Deobandi proxies. Under pressure in the wake of the Quetta bombings, police arrested Ishaq at his home in the eastern Punjab province on Friday under a colonial-era public order law. But in Karachi, Farooqi and his thousands of followers project a new aura of confidence. Crowds of angry men chant "Shia infidel! Shia infidel" at rallies and burn effigies while clerics pour scorn on the sect from mosque loudspeakers after Friday prayers. A rash of graffiti hails Farooqi as a savior. Over glasses of milky tea, he explained that his goal was to convince the government to declare Shi'ites non-Muslims, as it did to the Ahmadiyya sect in 1974, as a first step towards ostracizing the community and banning a number of their books. "When someone is socially boycotted, he becomes disappointed and isolated. He realizes that his beliefs are not right, that people hate him," Farooqi said. "What I'm saying is that killing them is not the solution. Let's talk, let's debate and convince people that they are wrong." CODENAME "SHAHEED" Not far from Farooqi's seminary, in the winding lanes of the rough-and-tumble Malir quarter, Shi'ite leaders are kindling an awakening of their own. A gleaming metallic chandelier dangles from the mirrored archway of a half-completed mosque rising near the modest offices of Majlis Wahdat-e-Muslemeen - known as MWM - a vocal Shi'ite party that has emerged to challenge Farooqi's ascent. In an upstairs room, Ejaz Hussain Bahashti, an MWM leader clad in a white turban and black cloak, exhorts a gaggle of women activists to persuade their neighbors to join the cause. Seated beneath a portrait of Ayatollah Khomeini, the Shi'ite cleric who led the 1979 Iranian revolution, Bahashti said his organization would not succumb to what he sees as a plan by LeJ to provoke sectarian conflict. "In our sect, if we are being killed we are not supposed to carry out reprisal attacks," he told Reuters. "If we decided to take up arms, then no part of the country would be spared from terrorism - but it's forbidden." The MWM played a big role in sit-ins that paralyzed parts of Karachi and dozens of other towns to protest against the Quetta bombings - the biggest Shi'ite demonstrations in years. But police suspect that some in the sect have chosen a less peaceful path. Detectives believe the small Shi'ite Mehdi Force group, comprised of about 20 active members in Karachi, is behind several of the attacks on Deobandi clerics and their followers. The underground network is led by a hardened militant codenamed "Shaheed", or martyr, who recruits eager but unseasoned middle-class volunteers who compensate for their lack of numbers by stalking high-profile targets. "They don't have a background in terrorism, but after the Shia killings started they joined the group and they tried to settle the score," said Superintendent of Police Raja Umar Khattab. "They kill clerics." In November, suspected Mehdi Force gunmen opened fire at a tea shop near the Ahsan-ul-Uloom seminary, where Farooqi has a following, killing six students. A scholar from the madrasa was shot dead the next month, another student killed in January. "It was definitely a reaction, Shias have never gone on the offensive on their own," said Deputy Inspector-General Shahid Hayat. According to the Citizens-Police Liaison Committee, a Karachi residents' group, some 68 members of Farooqi's Ahle Sunnat wal Jama'at and 85 Shi'ites were killed in the city from early September to February 19. Police caution that it can be difficult to discern who is killing who in a vast metropolis where an array of political factions and gangs are vying for influence. A suspect has yet to be named, for example, in the slaying of two Deobandi clerics and a student in January whose killer was caught on CCTV firing at point blank range then fleeing on a motorbike. Some in Karachi question whether well-connected Shi'ites within the city's dominant political party, the Muttahida Quami Movement, which commands a formidable force of gunmen, may have had a hand in some of the more sophisticated attacks, or whether rival Sunni factions may also be involved. Despite the growing body count, Karachi can still draw on a store of tolerance. Some Sunnis made a point of attending the Shi'ite protests - a reminder that Farooqi's adherents are themselves a minority. Yet as Karachi's murder rate sets new records, the dynamics that have kept the city's conflicts within limits are being tested. In the headquarters of an ambulance service founded by Abdul Sattar Edhi, once nominated for a Nobel Prize for devoting his life to Karachi's poor, controllers are busier than ever dispatching crews to ferry shooting victims to the morgue. "The best religion of all is humanity," said Edhi, who is in his 80s, surveying the chaotic parade of street life from a chair on the pavement outside. "If religion doesn't have humanity, then it is useless." (Editing by Robert Birsel) ===== Pakistan’s Hazaras take up arms over attacks Police planni­ng to close entran­ces to Hazara Town, and recrui­t 200 young Hazara­s to patrol their own areas. By AFP Published: February 28, 2013 A Pakistani Hazara resident walking through debris from a bombing on February 16 which killed 89 Shia Muslims in Quetta. PHOTO: AFP QUETTA: Ismatullah holds an AK-47 and checks vehicles on the road. “Enough is enough. We have no trust in the security forces anymore and we’ll protect our community ourselves,” says the teenage Shia student. Extremist bombers killed nearly 200 people in Quetta in the two worst bomb attacks to strike Shia Muslims from the minority Hazara community, just weeks apart on January 10 and February 16. After each attack, thousands of Hazaras, including women and children, camped out in the bitter cold demanding that the army step in to protect them. The government brokered an end to the protests, but refused to mobilise the troops. Outlawed extremist group Lashkar-e-Jhangvi (LeJ) claimed responsibility and has threatened to exterminate all Shias. Few believe that dozens of men rounded up after the bomb attacks will ever be brought to justice. The Supreme Court and rights groups accuse the authorities of failing to protect Hazaras and now young men like 18-year-old Ismatullah are taking up arms to defend themselves and their families. Ismatullah’s best friend was shot dead last June near Hazara Town. He lost more friends when suicide bombers flattened a snooker hall on January 10 and a massive bomb hidden in a water tanker destroyed a market on February 16. “I couldn’t control myself when I saw scattered pieces of so many children and women of our community,” said the first year college student. “Our community is only interested in education and business, but terrorists have forced us to take up whatever arms we have and take to the streets for our own security.” At the moment they operate as volunteers under the name, Syedul- hohada Scouts, registered as part of the Balochistan Scouts Association, an affiliate of the worldwide scouting movement. For years, young men like Ismatullah have volunteered to protect sensitive events, such as religious processions during the holy month of Muharram. But their chairman says the threat is now so great that they should be paid full time as an auxiliary to government security forces. “We have around 200 young men who perform security duties on specific occasions, but most of them are students and workers, and can’t work full-time,” said Syed Zaman, chairman of the Hazara Scouts. “We are trying to make a system to start their salaries for permanent deployment and also coordinate with the security agencies. Hopefully, we will be able to form a regular force… and salaries in a month,” he said. Scouts president Ghulam Haider said it was a mistake to rely on government security when the first of two suicide bombers struck at the snooker hall in the Alamdar Road neighbourhood. “It resulted in another bomb blast minutes after the first one and we lost many more people,” Haider told AFP. “We didn’t want that to happen again, so immediately after the blast on February 16, we armed our youth to man the streets and entry points, which helped to prevent the chances of a second attack,” he claimed. Hazara Town, where the market was bombed, is very exposed, in the shadow of the Chiltan mountains and near the bypass which links the Afghan border town of Chaman to Karachi. While paramilitary Frontier Corps and police patrol the main approaches, they are not visible inside the neighbourhood. “Security agencies can’t protect us. They don’t know the area because most of them come from outside Quetta. So we’re planning to set up our own permanent posts inside our areas,” said Haider. The police, however, have their doubts. “If we start private policing by arming one particular community, it will set the wrong precedent,” said Fiaz Ahmed Sunbal, head of Quetta police operations. He claimed police were planning to close entrances to Hazara Town, and would recruit 200 young Hazaras to patrol their own areas. Haider says closing off roads will isolate the community but welcomed the recruitment of Hazara Scouts as a long-term solution. Others warn that time is running out. “If they don’t do anything and something happens again, we will take up guns and go out and kill our opponents. There will be open war,” said 26-year-old shopkeeper Zahid Ali. ============== Twin blasts in Karachi: Live updates Twin blasts in Abbas Town leave two dead and 18 injure­d. By Web DeskPublished: March 3, 2013 PHOTO: EXPRESS .KARACHI: Twin blasts occurred on Sunday evening in Abbas Town, Karachi, which left two dead and 18 injured, Express News reported. The blasts took place on Abul Hasan Isphani Road, in the middle of a residential area. Both blasts occured at the entrance of Iqra City. Women and children are among the injured. This is the second blast that has shaken Abbas Town in the span of four months. A blast took place in November of last year near an Imambargah in Abbas town, which killed two people and injured over a dozen men, including two Rangers personnel. …………………………………………………………………………………………………………………………………… 7:35pm Women and children were reported to be among those injured in the blasts. Two buildings were completely destroyed during the explosions. The residents of the area are predominantly Shia Muslims. …………………………………………………………………………………………………………………………………… 7:28pm The process of shifting the injured to hospitals is still ongoing, Express News reports. The Bomb Disposal Squad is still on their way to the site to determine the cause of the blasts. Police and security officials have cordoned off the area. …………………………………………………………………………………………………………………………………… 7:20pm Two people have died and 18 have been injured, Express News reports. All of those injured in the blasts have not yet been shifted to hospitals. …………………………………………………………………………………………………………………………………… 7:10pm A second blast was heard in Abbas Town. Windows of nearby buildings reportedly damaged. The blasts were reported to have occurred on Abul Hasan Isphani Road. Witnesses reported seeing a cloud of smoke rising from the site of the blasts. …………………………………………………………………………………………………………………………………… 7:00pm The first blast was heard in Abbas Town. Initial reports suggest that it was due to a planted IED. Rescue teams were alerted and had left for the site. ================

No comments: