RT News

Friday, April 11, 2014

Is there even one judge in this country who can convict him?

Pakistani Taliban plot with seminaries to assault capital: police Fri, Apr 11 08:44 AM EDT By Mehreen Zahra-Malik ISLAMABAD (Reuters) - The Pakistani Taliban will coordinate with Islamist activists at major seminaries in or near the capital, Islamabad, to launch attacks if peace talks with the government fail, police said in a report obtained by Reuters. Prime Minister Nawaz Sharif took power last year promising to end Pakistan's insurgency through negotiations. Talks got going in February but have achieved little. The Pakistani Taliban, allied with but separate from the Afghan Taliban, are fighting to overthrow the government and impose a strict version of Islam on the nuclear-armed nation of 180 million people. They called a ceasefire beginning on March 1 to facilitate the talks but it officially ended on Thursday. It is unclear if the ceasefire will be extended. Police said in the report that two well-known seminaries would support attacks in the capital and its twin city of Rawalpindi if the talks break down and the military moves against Taliban bases in areas bordering Afghanistan. "If talks between the government and the Taliban fail ... like-minded religious seminaries and mosques have been given the target of fully contributing in carrying out attacks," police said in the report, which was prepared last month. Police identified two well-known seminaries, or madrasas, on the outskirts of Islamabad. They said the two had already helped launch several attacks, including a 2009 assault on the army's headquarters in Rawalpindi. One is led by a cleric called Azizur Rehman Hazarvi. It provides "brain washing courses and lessons on sacrificing oneself for jihad", police said in the report. The other is run by Fazlur Rehman Khalil, who is on a U.S. terror watch-list and signed a 1996 fatwa or decree from Osama bin Laden in which he declared war on the United States. At Khalil's seminary, commanders provide "jihadi weapons training classes" to students from the ethnic Pashtun tribal areas which have long been militant recruiting grounds, police said. The two seminaries also host fighters who come to carry out attacks and help with "all last minute preparations", they said. Militant fighters have set themselves up with activists at hardline mosques in Islamabad before. In 2007, more than 100 people were killed when security forces assaulted the Red Mosque in the heart of the capital after well-armed fighters from the tribal areas and followers of the mosque's radical clerics running a Taliban-style movement refused to surrender. Police and government spokesmen declined to comment on the report but security officials who requested not to be identified said the information was correct. One police officer said 20 seminaries in Rawalpindi were being investigated for similar Taliban links. "KILL THEM IN THE CITIES" Khalil denied any connection with the Taliban and said his seminary was being threatened by insurgents for being pro-government. "We openly believe that any attacks against Pakistan are wrong and against Islam," Khalil told Reuters. "Ask the police to show me one arrested person who is linked to my seminary." The other cleric identified in the report, Hazarvi, was not available for comment. The Pakistani Taliban spokesman was also not available to comment but a member of the Taliban leadership council said fighters were present in all major cities and would be "unstoppable" if the talks with the government broke down. "If the government attacks us in the tribal areas, we will kill them in the cities," he said. "By the grace of god, the Taliban today are more united and present everywhere." A bomb in a market on the outskirts of Islamabad on Wednesday killed 24 people. The Taliban denied responsibility. Despite Khalil's denial of militant links, police say he runs a faction called Ansarul Ummah, which draws support from several groups linked to al Qaeda. Investigators say Ansar is a front for the banned Harkat-ul-Mujahideen that Khalil founded in 1985. Harkat was one of several militant groups patronized by Pakistan's intelligence agencies, who have long considered such groups useful assets in case of war with arch enemy India and in promoting Pakistani interests in neighboring Afghanistan. A cleric knowledgeable about hardline seminaries said he believed that Khalil had links with the Taliban and described him as a middleman for Taliban and government negotiators. Khalil's role in trying to get talks going has been reported in the media.
Muneebur Rehman, chairman of an alliance of seminaries, dismissed the findings of the police report and asked, if it were true, why authorities had not done anything. "If this report carries evidence of seminaries collaborating with Taliban for attacks, the government must go ahead and take action," Rehman said.
But security officials say they are often hamstrung because judges are too afraid to sentence militants. "Khalil has been arrested before but freed for lack of evidence," said a top official. "Is there even one judge in this country who can convict him?" (Additional reporting by Jibran Ahmed in Peshawar, Eissa Saeed in Islamabad, Mubasher Bokhari in Lahore; Editing by Robert Birsel)
Khawaja Muhammad Asif speech on Hazara Shia... by alexpressed سیاستدانوں کے نام خواجہ آصف پر’’وقار۔ وقار‘‘ کے نام پر کیچڑ اُچھالا جا رہا ہے تو مجھے ’’میموگیٹ‘‘ کے لمحات بار بار یاد آنا شروع ہوگئے نصرت جاوید جمعـء 11 اپريل 2014 تبصرے صفحہ شیئر کریں صفحہ پرنٹ کریں دوستوں کو بھیجئے nusrat.javeed@gmail.com صحافی سیاست دانوں کے ساتھ دوستیاں پالنا شروع ہو جائے تو اپنے دھندے کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتا۔ اپنی تجزیاتی حس اور ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ فاصلہ رکھا جائے۔ ہم مگر انسان بھی تو ہیں۔ صرف خبروں کی تلاش کے لیے سیاست دانوں سے ملنا ملانا پڑتا ہے تو تعلق واسطے بھی بن جاتے ہیں۔ جس قومی اسمبلی نے 1993ء سے 1996ء تک کام کیا وہ بڑی جاندار اور متحرک اسمبلی ہوا کرتی تھی۔ اس اسمبلی کی ساری رونق اپوزیشن کے چند اراکین کی بدولت تھی جو بہت محنت کے ساتھ محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے خلاف مواد اکٹھا کرتے اور اسے بڑی ذہانت کے ساتھ قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں پیش کرتے ہوئے میلہ لوٹ لیتے۔ خواجہ محمد آصف اس اسمبلی کو توانائی اور رونق بخشنے والوں میں سے سب سے نمایاں ہوا کرتے تھے۔ قومی اسمبلی کی پریس گیلری میں بیٹھے ہوئے میرے جیسے رپورٹروں کو ان کے بولنے کا انتظار رہتا۔ پھر تجسس یہ پیدا ہونا شروع ہو گیا کہ وہ حکومتِ وقت کے خلاف ایسا چٹ پٹا مواد کیسے اکٹھا کرتے ہیں۔ اپنے تجسس کی تسکین کے لیے ضروری تھا کہ ان سے میل ملاقات بڑھائی جائے۔ ملاقاتیں ہوئیں تو پتہ چلا کہ موصوف کی بہت ساری عادتیں اپنے ہی جیسی ہیں۔ پیٹو نہیں مگر لذیذ کھانے کا شوق۔ دوستوں کے ساتھ محفل آرائی اور اس میں دل کھول کر پھکڑ پن اور لطیفہ بازی۔ انگریزی زبان والا Jolly Good Fellow جو بے ایمان نہیں۔ اخبار، رسالے اور کتابیں بھی شوق سے پڑھتا ہے اور پارسائی کے دعوے کیے بغیر چند اصولوں پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو ہرگز تیار نہیں ہوتا۔ موصوف نواز شریف کے بے تحاشا وفادار بھی تھے۔ مگر اس وفاداری کا اظہار فدویانہ انداز میں کبھی نہ کرتے۔ آف دی ریکارڈ محفلوں میں اپنے لیڈر اور جماعت پر شدید تنقید کو وہ خندہ پیشانی سے برداشت کرتے اور کبھی کبھار اس ضمن میں واضح کوتاہیوں کا اعتراف بھی کر ڈالتے۔ سردار فاروق خان لغاری مرحوم نے مگر وہ اسمبلی توڑ دی۔ نئے انتخابات ہوئے۔ نواز شریف دوسری بار اس ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔ انھوں نے خواجہ آصف کو نج کاری کی وزارت دے دی اور چٹ پٹی خبروں کا متلاشی صحافی اس وزیر سے دور ہو گیا۔ پھر جنرل مشرف نے نواز شریف کے خلاف فوجی بغاوت کر دی۔ خواجہ آصف کو جنرل امجد کے ماتحت احتساب والے اٹھا کر پتہ نہیں کہاں لے گئے۔ میرے جیسے چند صحافیوں نے بڑی مشکلوں کے بعد ان کا پتہ لگایا۔ کافی تشدد کے ذریعے خواجہ آصف سے ’’کرپشن کہانیاں‘‘ برآمد کرنے کی کوشش ہوتی رہی۔ جب کچھ بھی برآمد نہ ہو سکا تو انھیں رہا کر دیا گیا۔ ان پر اس پورے عرصے میں جو گزری وہ ایک دلخراش داستان ہے۔ اس کے ساتھ حقیقت یہ بھی ہے کہ خواجہ آصف وہ واحد سیاست دان تھے جن کے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں جنرل امجد نے باقاعدہ ایک بیان کے ذریعے معافی بھی مانگی تھی۔ اس معافی کے باوجود خواجہ آصف بجھ سے گئے۔ 2002ء کی قومی اسمبلی میں منتخب ہو کر آئے تو بیٹھے اپوزیشن ہی کی نشستوں پر لیکن مولوی مدن والی بات نہ رہی۔ 2008ء کے بعد کچھ بحال ہوئے۔ مگر مجھے ہمیشہ گلہ یہی رہا کہ بجائے اپنے کیس کو ماضی کی طرح قومی اسمبلی کے ایوان کے اندر رہ کر لڑنے کے وہ افتخار چوہدری کی عدالت میں جانا شروع ہو گئے۔ بات اگر کرپشن وغیرہ رکوانے تک محدود رہتی تو شاید میں اتنا خفا نہ ہوتا۔ اصل حیرت مجھے اس وقت ہوئی جب خواجہ آصف نے ’’میموگیٹ‘‘ پر بھی ایک طوفان کھڑا کر دیا اور اپنے لیڈر نواز شریف کو کالا کوٹ پہنوا کر اس قضیے کی تحقیقات کروانے کی عرضداشت کے ساتھ عدالت میں لے گئے۔ ’’میمو گیٹ‘‘ کو میں نے کبھی اس لیے بھی اہمیت نہ دی کہ اس کا مقصد صرف حسین حقانی کو فارغ کروانا نہیں تھا۔ حقیقی مقصد ان سوالات سے جان چھڑانا تھا جو پاکستان کا ہر ذی شعور شہری 2 مئی 2011ء کے بعد اٹھا رہا تھا۔ آج ہمارے ملک میں کئی برسوں سے پھیلی جو افراتفری نظر آ رہی ہے اس کے اصل اسباب 9/11 اور اس کے بعد پاکستانی ریاست کے طالبان کے بارے میں یوٹرن کے اثرات ہیں۔ غلط یا صحیح امریکی اسامہ بن لادن کو 9/11 کا حقیقی ذمے دار سمجھتے تھے۔ اسامہ اور اس کے ساتھیوں کو سبق سکھانے کے نام پر افغانستان پر قبضہ کیا گیا۔ جنرل مشرف نے اس قبضے کو آسان بنانے کے لیے امریکا کی ہر طرح سے مدد کی۔ اس مدد کی وجہ سے امریکا نے پاکستان کو اتنے ڈالر بھی فراہم کر دیے جو مشرف دور میں اقتصادی حوالوں سے تھوڑی بہت رونق لگاتے رہے۔ ستمبر 2006ء سے مگر واشنگٹن کے طاقتور حلقوں نے الزام لگانا شروع کر دیا کہ ان کے ساتھ القاعدہ اور طالبان کے حوالے سے Double Game کھیلی جا رہی ہے۔ اس الزام نے جان پکڑی تو بات 2008ء کے نئے انتخابات تک پہنچی۔ ہم بحیثیتِ قوم مگر اس الزام کی سنگینی کو پوری طرح سمجھ ہی نہ پائے۔ بالآخر امریکی ہم سے مایوس ہو گئے۔ انھوں نے اپنے تئیں ایبٹ آباد کے اس گھر کا سراغ لگا لیا جہاں اسامہ پتہ نہیں اپنی کتنی بیویوں اور بچوں سمیت بہت سالوں سے رہ رہا تھا۔ پھر اس مکان پر یکم اور 2 مئی کی درمیانی رات امریکی کمانڈر اتارے گئے۔ جنہوں نے بغیر کسی مزاحمت کے اسامہ کو ہلاک کر دیا۔ ایک عام اور بے بس پاکستانی ہوتے ہوئے میرا اصرار ہے کہ 2 مئی 2011ء کا واقعہ میرے ملک کے وقار کے لیے ایک بہت بڑا دھچکہ تھا۔ اپنے قومی وقار کی بحالی کے لیے ضروری تھا کہ ہم بڑی بے رحمی کے ساتھ اس بات کا کھوج لگاتے کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد کیسے پہنچا اور وہاں اتنے برسوں تک کس طرح اطمینان سے پناہ گزین رہا۔ وہ کیا وجوہات تھیں جن کی وجہ سے یکم اور 2 مئی کی درمیانی رات امریکی طیارے ایبٹ آباد تک آ گئے تو ہماری ریاست کو خبر تک نہ ہوئی۔ ساری واردات کی اطلاع ہمیں امریکی حکام نے ٹیلی فون کے ذریعے اس وقت فراہم کی جب وہ اپنا مشن مکمل کر چکے تھے۔ قومی اسمبلی میں تھوڑے شور شرابے کے بعد ایک کمیشن ضرور بنا۔ مگر بجائے اس کی رپورٹ کا انتظار کرنے کے ہمیں منصور اعجاز نامی ایک شخص نے ’’میموگیٹ‘‘ والا طلسم ہوشربا مہیا کردیا۔ خواجہ آصف اور نواز شریف طوطا مینا کی یہ کہانی لے کر حسین حقانی اور آصف علی زرداری کو ’’غدار‘‘ ٹھہروانے کے لیے عدالتوں میں چلے گئے۔ آج جب خواجہ آصف پر ’’وقار۔ وقار‘‘ کے نام پر کیچڑ اُچھالا جا رہا ہے تو مجھے ’’میموگیٹ‘‘ والے دنوں کے بہت سارے لمحات بار بار یاد آنا شروع ہو گئے ہیں۔ خواجہ آصف کے ساتھ اپنی دیرینہ محبت کی وجہ سے میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ ’’اچھا ہوا اور You Deserved It‘‘۔ ہاں خواجہ آصف پر کیچڑ اچھالنے والے سیاست دانوں سے یہ التجا ضرور کرنا چاہ رہا ہوں کہ ’’وقار‘‘ کے نام پر اپنے ایک ساتھی سیاست دان کا سر مانگتے ہوئے اتنا ضرور یاد رکھیں کہ ’’وقار‘‘ کبھی ان کے خلاف بھی استعمال ہو سکتا ہے۔

No comments: